آسان عروض کے دس سبق

میں نے یہاں کار کو الگ لفظ نہیں سمجھا، بلکہ درکار اور سرکار اپنی اپنی جگہ واحد لفظ ہیں۔ اگر کار کو الگ لفظ سمجھا جائے تو وہ شاید ردیف میں چلا جائے گا۔ اور قوافی سر اور در ہوں گے۔ اس کا اطلاق لفظی مثالوں میں نہیں ہو رہا، کسی شعر میں ہوں تو بات زیادہ واضح ہو سکتی ہے۔ یہاں بنیادی شرط ’’اعلان‘‘ ہے جس پر ابھی بات نہیں ہوئی۔

ایک ہی لفظ کا چاہے وہ مرکب لفظ ہو، ایک حصہ قافیہ اور دوسرا ردیف میں چلا جائے، تو وہ بڑی عجیب صورتِ حال ہو گی۔ ہم ان شاء اللہ اس پر بھی بات کریں گے، مگر باری آنے پر۔

بہت آداب جناب مزمل شیخ بسمل صاحب۔

انشا اللہ تعالیٰ۔
 
آسان علمِ قافیہ

اقبال کی ان دونوں غزلوں کے مطلعے دیکھئے:

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی​
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی​

دونوں مصرعوں کے آخری الفاظ ’’کیا تھی‘‘ باہم متماثل ہیں اور ان سے پہلے الفاظ تکرار، عار؛ کا اختتامیہ ’’الف۔ر‘‘ مشترک ہے۔ یہغزل کے بقیہ شعروں میں ردیف یہی رہے گی اور قافیہ کا لحاظ بھی رکھا جائے گا کہ جو بھی الفاظ ردیف سے پہلے واقع ہوں، ان کا اختتامیہ ’’الف۔ر‘‘ ہو گا۔ ان قوافی میں دو حرف مستقل ہیں، جن میں پہلا الف ہے۔ درجِ ذیل غزل کے قوافی میں صرف ایک حرف الف مستقل ہے۔
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں​

مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں​

یہ اہتمام مطلع میں کیا جاتا ہے کہ ردیف اور قافیہ واضح طور پر پہچانے جا سکیں۔ اس کو ’’اِعلان‘‘ کہتے ہیں۔ کوئی شعر بیان کئے بغیر اِعلان مقصود ہو تو کم از کم دو ہم قافیہ لفظ سامنے رکھنے ہوں گے تاکہ کوئی ابہام واقع نہ ہو۔ مثال کے لئے یہ ایک شعر دیکھئے:
سر تو سارے خم ہیں بارِ غلامی سے​

ایوانوں میں صرف کلاہیں اٹھتی ہیں​

یہ بتا دیا گیا کہ اس میں ’’کلاہیں‘‘ قافیہ ہے، اس کے ہم قافیہ الفاظ کیا ہوں گے؟
ایک صورت ہے: آہیں، پناہیں، راہیں؛ وغیرہ (اہیں: کو حروفِ قافیہ قرار دیا گیا)۔ یا:
دوسری صورت ہے: دیواریں، موجیں، صبحیں، تلواریں، رسمیں؛ وغیرہ (یں: کو حروفِ قافیہ سمجھ گیا)

اس امرکا فیصلہ مطلع میں ہو تا ہے:
جب ذہنوں میں خوف کی ٹیسیں اٹھتی ہیں​
دب جاتی ہیں جتنی سوچیں اٹھتی ہیں​

سو، یہاں دوسری صورت (دیواریں، موجیں، صبحیں، تلواریں، رسمیں) کو اعتبار ملتا ہے، کیوں کہ ’’ٹیسیں‘‘ اور ’’سوچیں‘‘ میں ’’یں‘‘ مشترک اختتامیہ ہے۔ پہلی صورت (آہیں، پناہیں، راہیں)کسی دوسری غزل میں رہی ہو گی، اس غزل میں نہیں ہے۔اس تفصیل میں جانے کا مقصد یہ بیان کرناہے کہ عمومی معانی میں لفظ ’’کلاہیں‘‘ کے ہم قافیہ الفاظ: آہیں، پناہیں، راہیں، دیواریں، موجیں، صبحیں، تلواریں، رسمیں؛ وغیرہ ہیں، تاہم زیرِ نظر غزل میں آہیں، پناہیں، راہیں کی قید نہیں۔ پوری غزل بھی دیکھتے چلئے:

جب ذہنوں میں خوف کی ٹیسیں اٹھتی ہیں​
دب جاتی ہیں جتنی سوچیں اٹھتی ہیں​
سر تو سارے خم ہیں بارِ غلامی سے​
ایوانوں میں صرف کلاہیں اٹھتی ہیں​
الفت میں رخنے بھی اتنے پڑتے ہیں​
جتنی اوپر کو دیواریں اٹھتی ہیں​
حد نظر تک کوئی سفینہ بھی تو نہیں​
کس کے لئے یہ سرکش موجیں اٹھتی ہیں​
ایک زمانہ گزرا سورج نکلا تھا​
مشرق سے اب اندھی صبحیں اٹھتی ہیں​
غیر مقابل ہوں تو ہم بھی لڑ جائیں​
ہم پر اپنوں کی تلواریں اٹھتی ہیں​
لو آسیؔ جی، پیار کے سوتے خشک ہوئے​
پریم پریت کی ساری رسمیں اٹھتی ہیں​

لہٰذا ہمارے نزدیک اگر کسی غزل کے حوالے سے بات کرنا مقصود ہو تو کم از کم دو ہم قافیہ الفاظ پہلے پیش کرنے ہوں گے تاکہ ان کی مماثلت کوحوالہ سمجھا جا سکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے۔​
اور دیگر اہلِ فکرونظر۔​
 
آسان علمِ قافیہ

یہاں تک ہم نے جو قوافی دیکھے ہیں، ان کی گروہ بندی کرتے ہیں۔

ایک حرف : کیا، بجھا، سامنا، انتہا ۔۔
دو حرف: سوچیں، موجیں، رسمیں ۔۔ اور ۔۔ تکرار، عار، انکار، سرکار ۔۔
تین حرف: اب تک کوئی مثال نہیں آئی۔ دورانِ مطالعہ کئی مثالیں آ سکتی ہیں۔۔
چار حرف: آہیں، کلاہیں، نگاہیں، راہیں ۔۔
وغیرہم۔

علمائے قافیہ کا کہنا ہے کہ یہ ایک سے سات حروف تک ہو سکتے ہیں۔


۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے​
 
بہت شکریہ جناب مزمل شیخ بسمل صاحب۔
اس سلسلے کو چلتا رکھنے کے لئے اصطلاحات اور دیگر فنیات کے ضمن میں مجھے آپ کی اور جناب الف عین کی طرف سے توجہ اور راہنمائی کی ضرورت رہے گی۔ کرم فرمائیے گا۔
ہمہ وقت حاضر استاد محترم آپ کی خدمت میں.
 
دوسرا یہ کہ اگر کسی کو اصطلاحات یاد رکھنے میں پریشانی ہو تو اس چکر میں پڑے گا ہی نہیں اسکے لئے نئی اور پرانی اصطلاحات یکساں ہیں محض بحروں کا وزن یاد رکھ لے۔ جو آج تک ہوتا چلا آیا ہے۔ اور یہی دستور رہا ہے کہ آج تک جس شخص کو مفاعیلن کی سالم بحر ”ہزج“ کا نام نہ یاد ہوسکا ہو وہ ”اہزوجہ“ کیوں یاد رکھے گا؟​

ایسا شخص بحر ہزج کا وہ نام کیوں کر یاد رکھے گا بھلا؟ جس میں چار چار زحاف مذکور ہوں؟
 

شاہ بخاری

محفلین
چلو اس علمی بحث کو کوزہ میں بند کرنے کی سعی کرتے ہیں :rolleyes:
وہی ہیں مشکلیں اپنی حیات میں افسر
کبھی جو شعر میں پیدا زحاف کرتے ہیں
ا ب پ
 

عمرمختارعاجز

لائبریرین
محترم آسی صاحب اگر آپ یہ فایلیں کسی اور ویب سایٹ پر اپلوڈ کر دیں تو ڈاونلوڈکرنا آسان ہو جائے گا ۔یہ تو رجسڑیشن مانگتی ہے۔
 
ذو بحرین



رئیس امروہوی کی مندرجہ ذیل غزل میں ہر شعر کا مصرعِ ثانی ذوبحرین ہے، اور کچھ شعروں کے مصرعِ اول بھی۔
دونوں بحریں یہ ہیں:

(۱)۔ فاعلتن مفاعلن فاعلتن مفاعلن ۔ اس میں ہر ’’مفاعلن‘‘ کے مقابل ’’مفاعلات‘‘ آ سکتا ہے۔
(۲)۔ مستفعلن مستفعلن مستفعلن مستفعلن

ملاحظہ فرمائیے

کس کا جمال ناز ہے جلوہ نما یہ سو بسو (۱، ۲)
گوشہ بگوشہ دربدر قریہ بہ قریہ کو بہ کو (۱، ۲)

اشک فشاں ہے کس لئے دیدہ منتظر مرا (۱)
دجلہ بہ دجلہ یم بہ یم چشمہ بہ چشمہ جو بجو (۱، ۲)

میری نگاہ شوق میں حسن ازل ہے بے حجاب (۱، ۲)
غنچہ بہ غنچہ گل بہ گل لالہ بہ لالہ بو بہ بو (۱، ۲)

جلوہ عارض نبی رشک جمال یوسفی (۱)
سینہ بہ سینہ سر بہ سر چہرہ بہ چہرہ ہو بہ ہو (۱، ۲)

زلف دراز مصطفی گیسوئے لیل حق نما (۱، ۲)
طرہ بہ طرہ خم بہ خم حلقہ بہ حلقہ مو بہ مو (۱، ۲)

یہ مرا اضطراب شوق رشک جنون قیس ہے (۱)
جذبہ بہ جذبہ دل بہ دل شیوہ بہ شیوہ خو بہ خو (۱، ۲)

تیرا تصور جمال میرا شریک حال ہے (۱)
نالہ بہ نالہ غم بہ غم نعرہ بہ نعرہ ہو بہ ہو (۱، ۲)

بزم جہاں میں یاد ہے آج بھی ہر طرف تیری (۱)
قصہ بہ قصہ لب بہ لب خطبہ بہ خطبہ رو بہ رو (۱، ۲)

کاش ہو ان کا سامنا عین حریم ناز میں (۱)
چہرہ بہ چہرہ رخ بہ رخ دیدہ بہ دیدہ دو بہ دو (۱، ۲)

عالم شوق میں رئیس کس کی مجھے تلاش ہے (۱)
خطہ بہ خطہ رہ بہ رہ جادہ بہ جادہ سو بہ سو (۱، ۲)

بہ شکریہ: احسان الحق (’’تکلف بر طرف‘‘ : فیس بُک)۔



الف عین ، محمد وارث ، محب علوی ، سید شہزاد ناصر ، سید ذیشان ، محمد اسامہ سَرسَری ، منیر انور ، محمد اشرف ساقی ، فارقلیط رحمانی ، فاتح ، مزمل شیخ بسمل ، نایاب ، نیلم ، مہ جبین ۔۔۔ اور آپ سب!
 

مہ جبین

محفلین
استادَ محترم محمد یعقوب آسی صاحب یہ شاعری کے اصول و ضوابط سیکھنا تو اپنے بس کی بات نہیں نہ ہی کچھ سمجھ میں آتا ہے ، بس اچھا کلام پڑھ کر دل سے بے اختیار داد ضرور نکلتی ہے ۔ رئیس امروہوی کا جو کلام آپ نے نقل فرمایا ہے بہت عمدہ ہے
ٹیگ کرنے کا شکریہ
 
حضور اس زمین میں علامہ اقبال کا ایک شعر بھی ہے
خضر بھی بے دست و پاء الیاس بھی بے دست و پاء
مرے طوفان دریا بہ دریا یم بہ یم جو بہ جو
اصل غزل قرۃ العین طاہرہ کی ہے ڈھونڈ کر شامل کرتا ہوں
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
حضور اس زمین میں علامہ اقبال کا ایک شعر بھی ہے
خضر بھی بے دست و پاء الیاس بھی بے دست و پاء
مرے طوفان دریا بہ دریا یم بہ یم جو بہ جو
اصل غزل قرۃ العین طاہرہ کی ہے ڈھونڈ کر شامل کرتا ہوں
علامہ اقبال کی ایک فارسی غزل بھی اسی زمین میں ہے کہ جو اس لنک پہ دیکھی جا سکتی ہے

اس کے علاوہ آپ نے تصویری شکل میں ایک کتابچہ دیا تھا 'قرۃ العین طاہرہ' کے متعلق۔ اصل غزل شاید اس میں ہو۔
 
Top