آسان عروض کے دس سبق

زلفی شاہ

لائبریرین
سر محمد یعقوب آسی صاحب! بقول آپ کے، آپ نے یہ جدید اصول نئے سیکھنے والوں کی آسانی کے لئے لکھے ہیں۔ لیکن ان کو پڑھنا آپ نے مشکل بنا دیا ہے۔ جب آپ کے عطا کردہ لنک کو کلک کرتے ہیں۔ تو ڈاؤن لوڈ کی آپشنز آ جاتی ہیں۔ ان پیج اور ورڈ دونوں میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اس مضمون کو پڑھنے کا شوق پیدا ہوا ہے۔ کوئی آسانی کی راہ نکالئے۔ نوازش ہوگی۔
 
علمِ عروض سے دل چسپی رکھنے والوں دوست یہ مضمون ضرور پڑھیں۔
یہ مضمون پر ڈاکٹر جواد علی کی عربی تصنیف ’’المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام‘‘کے ایک باب کا اردو ترجمہ ہے۔
مترجم: عمر فاروق، ریسرچ ایسوسی ایٹ۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد۔

مذکورہ یونیورسٹی کا تحقیقی مجلہ ’’معیار‘‘ جلد نہم ۔ صفحہ نمبر 159 تا 180
http://www.iiu.edu.pk/mayar-vol-9.php?action=next

یہ تو خاصہ طویل ہے اور فارمیٹ بھی پڑھنے میں آسان نہیں ہے۔
اگر اسے یونیکوڈ میں تھوڑا تھوڑا کرکے بھی پیش کیا جائے تو کافی مفید ہو سکتا ہے۔
 
جواب نمبر 37، 38 برائے توجہ ۔۔۔
جناب مزمل شیخ بسمل، جناب محمد وارث، جناب التباس ، جناب محب علوی، جناب فارقلیط رحمانی، جناب محمد خلیل الرحمٰن، جناب الف عین، اور دیگر احبابِ نظر !

بہت شکریہ ٹیگ کے لئے جناب۔ با وجود مشکل کے کافی حصہہ پڑھ چکا ہوں۔ لیکن اس سے مجھے اب تک کوئی کام کا سبق نہ مل سکا۔ یہ یقیناً میری ناقص فہم کا قصور ہے۔
لکھنے والا ایک طرف تو عروض کے خلاف رقمطراز ہے، دوسری جانب اس علم کو خلیل سے چھین کر دوسروں کا ثابت کرنا چاہتا ہے۔ مگر ان سب باتوں کا تعلق علم یا اردو میں عروض کے وجود سے نہیں، حد تو یہ ہے کہ ان سب باتوں کا اردو ادب سے ہی کوئی تعلق نہٰیں (میری ذاتی رائے)، بلکہ یہ محض تاریخی تحقیق ہے جس سے مبتدی کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا کم از کم۔ عروض کے علم کا موجد نوے فیصد علمائے عروض خلیل کو ہی مانتے ہیں۔ جو دو چار باتیں اس سے ہٹ کر مصنف نے مجلہ میں لکھی ہیں اول تو وہ شاذ ہیں۔ اور اگر ثابت ہو بھی جائے تو اس سے فائدہ کیا ہوگا؟ بالفرض اگر عروض کا وجود خلیل سے پہلے ثابت ہو بھی گیا اور ہم خلیل کو موجد کی بجائے مؤلف مان لیں تب بھی فیصلہ عروضیوں کے حق میں ہوتا ہے۔ غیر عروضیوں کے حق میں نہیں ہوتا۔
آداب!
 
لیکن ان کو پڑھنا آپ نے مشکل بنا دیا ہے۔ جب آپ کے عطا کردہ لنک کو کلک کرتے ہیں۔ تو ڈاؤن لوڈ کی آپشنز آ جاتی ہیں۔ ان پیج اور ورڈ دونوں میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ اس مضمون کو پڑھنے کا شوق پیدا ہوا ہے۔ کوئی آسانی کی راہ نکالئے۔ نوازش ہوگی۔​

جناب زلفی شاہ صاحب! ڈاؤن لوڈ کر لیجئے، اس میں کیا ہے! آن لائن قابلَ مطالعہ کیسے بناتے ہیں، یہ میں بھی نہیں جانتا۔ آئیے، جناب الف عین سے راہنمائی طلب کرتے ہیں۔
 
لکھنے والا ایک طرف تو عروض کے خلاف رقمطراز ہے، دوسری جانب اس علم کو خلیل سے چھین کر دوسروں کا ثابت کرنا چاہتا ہے۔ مگر ان سب باتوں کا تعلق علم یا اردو میں عروض کے وجود سے نہیں، حد تو یہ ہے کہ ان سب باتوں کا اردو ادب سے ہی کوئی تعلق نہٰیں (میری ذاتی رائے)، بلکہ یہ محض تاریخی تحقیق ہے جس سے مبتدی کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا کم از کم۔ عروض کے علم کا موجد نوے فیصد علمائے عروض خلیل کو ہی مانتے ہیں۔ جو دو چار باتیں اس سے ہٹ کر مصنف نے مجلہ میں لکھی ہیں اول تو وہ شاذ ہیں۔ اور اگر ثابت ہو بھی جائے تو اس سے فائدہ کیا ہوگا؟ بالفرض اگر عروض کا وجود خلیل سے پہلے ثابت ہو بھی گیا اور ہم خلیل کو موجد کی بجائے مؤلف مان لیں تب بھی فیصلہ عروضیوں کے حق میں ہوتا ہے۔ غیر عروضیوں کے حق میں نہیں ہوتا۔​

جناب مزمل شیخ بسمل صاحب ۔ اتفاق سے اس باب کے مترجم میرے شناسا ہیں، ان کی وساطت سے یہ پبلی کیشن میرے علم میں آئی، میں نے یہاں شیئر کر دی۔ آپ کا ارشاد بالکل بجا ہے کہ یہ تاریخی تحقیق ہے۔

دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔
 
اسی مجلے کا صفحہ نمبر 181 تا 200​

http://www.iiu.edu.pk/mayar-vol-9.php?action=next​

علم عروض کا ارتقائی مطالعہ تصنیف محمد زبیر خالد، اردو ترجمہ ڈاکٹر روبینہ ترین​

ایک درستی فرما لیجئے، مجھ سے لکھنے میں سہو ہو گیا۔
یہ تصنیف اور ترجمہ نہیں بلکہ ’’مشترکہ مقالہ‘‘ ہے؛ جناب محمد زبیر خالد اور مادام ڈاکٹر روبینہ ترین کا۔
زحمت کے لئے معذرت۔




 
ذو بحرین کی ایک بہت عمدہ مثال

سید علی مطہر اشعر کے دو شعر ۔ اس فقیر کے مضمون ’’برگِ آوارہ کی تمثیل‘‘ سے

علی مطہر اشعر کا لہجہ اور اسلوب بہت نمایاں ، بہت منفرد ہے ۔ ایک حمد میں ، مَیں چونک اٹھا ، مندرجہ ذیل دو شعرذوبحرین ہیں​

چند لفظوں کے توسط سے بھلا کیسے لکھوں​
میرے مالک میں تری حمد و ثنا کیسے لکھوں​

وسعتِ ارض و سما کیا ہے بجز وہم و خیال​
اور کچھ بھی ہے یہاں تیرے سوا کیسے لکھوں​

یہ اشعار بحرِ رمل مثمن مقصور (فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن) پر بھی پورے اترتے ہیں اور بحر نمبر ۰ء۷۱۴ (فاعلن فاعلتن فاعلتن فاعلتن) پر بھی۔[حوالہ: ’’فاعلات‘‘ از محمد یعقوب آسی، مطبوعہ دوست ایسوسی ایٹس لا ہور ۱۹۹۳: صفحہ ۸۸]​
نوٹ: بحر نمبر 714 بحرِ ارمولہ ہے۔

نوید صادق ، محمد اسامہ سَرسَری ، التباس ، محب علوی ، محمد خلیل الرحمٰن ، مزمل شیخ بسمل اور دیگر احباب
 
آسان علم قافیہ

ہم جانتے ہیں کہ بیت یا شعر کی ’’زمین‘‘ کے تین جزو ہیں؛ وزن، قافیہ اور ردیف :
وزن: بیت کے دونوں مصرعوں کی بحر اور وزن کو (معلوم شرائط اور اختیارات کے تحت) مماثل ہونا چاہئے۔
قافیہ: بیت کے دونوں مصرعوں کے آخر میں واقع ہونے والے الفاظ کی مماثل صوتیت کو قافیہ کہتے ہیں۔
ردیف: بیت کے دونوں مصرعوں کے آخر میں قافیہ کے بعد کے الفاظ جو بعینہٖ متماثل ہوتے ہیں، وہ ردیف ہے۔ ردیف اختیاری ہے تاہم جب اختیار کر لی جائے تو اس کو نباہنا لازم ہو جاتا ہے۔
اقبال کی ایک غزل سے یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
تأمل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا، طرزِ انکار کیا تھی
تمہارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا
فسوں تھا کوئی تیری گفتار کیا تھی
یہ غزل بحرِ متقارب مثمن سالم میں ہے۔ اور اس کے ہر مصرعے کا عروضی وزن ’’فعولن فعولن فعولن فعولن‘‘ ہے۔ غزل کا پہلا شعر جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ اور ہم ردیف ہیں، مطلع کہلاتا ہے۔ ان میں قافیے ’’تکرار‘‘ اور ’’عار‘‘ ہیں اور ردیف ہے: ’’کیا تھی‘‘۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ غزل کے بقیہ شعروں کے مصرعِ اول میں قافیہ یا ردیف نہیں ہے، اور مصرعِ ثانی میں یہ اہتمام موجود ہے: ۔۔۔ طرزِ انکار کیا تھی، ۔۔۔ سرکار کیا تھی، ۔۔۔ گفتار کیا تھی۔
غزل کی بحور اور اوزان کے بارے میں تفصیلی بحث کے لئے ’’آسان عروض کے دس سبق‘‘ ملاحظہ ہوں۔ ردیف کے بارے میں مختصراً جان لیجئے کہ شعر میں ردیف کا ہونا لازمی نہیں۔ بلکہ اس کے دوسرے مصرعے کا قافیہ پر مکمل ہونا لازم ہے۔ تاہم ردیف ایک بار اختیار کر لی جائے تو پھر اس کو نباہنا ضروری ہے۔ مزید یہ کہ ردیف کی لفظی حیثیت قافیے سے الگ ہونی چاہئے، قافیے اور ردیف کا خلط اصولاً درست نہیں ہے۔ مثالیں آگے آئیں گی۔
لغت کی روشنی میں ردیف کو یوں سمجھئے کہ ایک گھوڑسوار ہے جس کے ہاتھ میں گھوڑے کی باگ ہے؛ وہ قافیہ ہے۔ سواری اور سوار کا نظام یہاں مکمل ہو گیا، اب یہاں کھوڑے کی پشت پر ایک اور شخص کے بیٹھنے کی گنجائش ہے وہ ردیف ہے۔ اس کا ہونا ضروری نہیں تاہم اگر وہ ہے تو اسے بھی سنبھل کر بیٹھنا ہے اور منزل تک سنبھل کررہنا ہے۔ گھوڑے کی باگ کو بحر کہہ لیجئے اور اس کی رفتار کو وزن۔ قلم کا سفر یوں ہی ہوا کرتا ہے۔
یہاں آموختہ دہرا لیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ بلینک ورس یا بلاقافیہ کی طرح اکبر الٰہ آبادی نے ڈالی تھی کہ اس کے مصرعوں میں قافیہ کا اہتمام نہیں ہوتا، بحر اور وزن کا اہتمام بہر حال ہوتا ہے۔ بعد ازاں اس کو نظم کی ہیئت میں ’’نظمِ معرّٰی‘‘ کے نام سے تسلیم کیا گیا۔ قوافی پر بحث کے ضمن میں آزاد نظم ہمارا موضوع نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے
جناب الف عین، جناب محمد وارث، جناب مزمل شیخ بسمل، اور دیگر اہلِ علم کی توجہ کے لئے۔
اس غرض سے کہ فقیر کے لکھے پر کڑی نظر رکھیں اور اگر کہیں کچھ غلط لکھ جاؤں تو اس کی نشان دہی فرما دیں۔
بہت آداب۔
 

شوکت پرویز

محفلین
بہت بہت شکریہ استاد محمد یعقوب آسی صاحب!
آپ نے اتنی مشکل بات کو اتنی عمدہ مثال کے ذریعہ بیان کر کے کتنا آسان بنا دیا۔
لغت کی روشنی میں ردیف کو یوں سمجھئے کہ ایک گھوڑسوار ہے جس کے ہاتھ میں گھوڑے کی باگ ہے؛ وہ قافیہ ہے۔ سواری اور سوار کا نظام یہاں مکمل ہو گیا، اب یہاں کھوڑے کی پشت پر ایک اور شخص کے بیٹھنے کی گنجائش ہے وہ ردیف ہے۔ اس کا ہونا ضروری نہیں تاہم اگر وہ ہے تو اسے بھی سنبھل کر بیٹھنا ہے اور منزل تک سنبھل کررہنا ہے۔ گھوڑے کی باگ کو بحر کہہ لیجئے اور اس کی رفتار کو وزن۔ قلم کا سفر یوں ہی ہوا کرتا ہے۔

 
آپ نے اتنی مشکل بات کو اتنی عمدہ مثال کے ذریعہ بیان کر کے کتنا آسان بنا دیا۔​

آداب عرض ہے جناب شوکت پرویز صاحب۔
میں نے یہ سوچا کہ یہ بات میری سمجھ میں آسانی سے کس طور آ سکتی ہے۔ بس، وہی کچھ پیش کر دیا۔
اس سے آگے آپ کا اپنا حُسنِ نظر ہے۔ دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔
 
آسان علم قافیہ
ہم جانتے ہیں کہ بیت یا شعر کی ’’زمین‘‘ کے تین جزو ہیں؛ وزن، قافیہ اور ردیف :
وزن: بیت کے دونوں مصرعوں کی بحر اور وزن کو (معلوم شرائط اور اختیارات کے تحت) مماثل ہونا چاہئے۔
قافیہ: بیت کے دونوں مصرعوں کے آخر میں واقع ہونے والے الفاظ کی مماثل صوتیت کو قافیہ کہتے ہیں۔
ردیف: بیت کے دونوں مصرعوں کے آخر میں قافیہ کے بعد کے الفاظ جو بعینہٖ متماثل ہوتے ہیں، وہ ردیف ہے۔ ردیف اختیاری ہے تاہم جب اختیار کر لی جائے تو اس کو نباہنا لازم ہو جاتا ہے۔
اقبال کی ایک غزل سے یہ اشعار ملاحظہ ہوں:
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
تأمل تو تھا ان کو آنے میں قاصد
مگر یہ بتا، طرزِ انکار کیا تھی
تمہارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی
کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا
فسوں تھا کوئی تیری گفتار کیا تھی
یہ غزل بحرِ متقارب مثمن سالم میں ہے۔ اور اس کے ہر مصرعے کا عروضی وزن ’’فعولن فعولن فعولن فعولن‘‘ ہے۔ غزل کا پہلا شعر جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ اور ہم ردیف ہیں، مطلع کہلاتا ہے۔ ان میں قافیے ’’تکرار‘‘ اور ’’عار‘‘ ہیں اور ردیف ہے: ’’کیا تھی‘‘۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ غزل کے بقیہ شعروں کے مصرعِ اول میں قافیہ یا ردیف نہیں ہے، اور مصرعِ ثانی میں یہ اہتمام موجود ہے: ۔۔۔ طرزِ انکار کیا تھی، ۔۔۔ سرکار کیا تھی، ۔۔۔ گفتار کیا تھی۔
غزل کی بحور اور اوزان کے بارے میں تفصیلی بحث کے لئے ’’آسان عروض کے دس سبق‘‘ ملاحظہ ہوں۔ ردیف کے بارے میں مختصراً جان لیجئے کہ شعر میں ردیف کا ہونا لازمی نہیں۔ بلکہ اس کے دوسرے مصرعے کا قافیہ پر مکمل ہونا لازم ہے۔ تاہم ردیف ایک بار اختیار کر لی جائے تو پھر اس کو نباہنا ضروری ہے۔ مزید یہ کہ ردیف کی لفظی حیثیت قافیے سے الگ ہونی چاہئے، قافیے اور ردیف کا خلط اصولاً درست نہیں ہے۔ مثالیں آگے آئیں گی۔
لغت کی روشنی میں ردیف کو یوں سمجھئے کہ ایک گھوڑسوار ہے جس کے ہاتھ میں گھوڑے کی باگ ہے؛ وہ قافیہ ہے۔ سواری اور سوار کا نظام یہاں مکمل ہو گیا، اب یہاں کھوڑے کی پشت پر ایک اور شخص کے بیٹھنے کی گنجائش ہے وہ ردیف ہے۔ اس کا ہونا ضروری نہیں تاہم اگر وہ ہے تو اسے بھی سنبھل کر بیٹھنا ہے اور منزل تک سنبھل کررہنا ہے۔ گھوڑے کی باگ کو بحر کہہ لیجئے اور اس کی رفتار کو وزن۔ قلم کا سفر یوں ہی ہوا کرتا ہے۔
یہاں آموختہ دہرا لیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ بلینک ورس یا بلاقافیہ کی طرح اکبر الٰہ آبادی نے ڈالی تھی کہ اس کے مصرعوں میں قافیہ کا اہتمام نہیں ہوتا، بحر اور وزن کا اہتمام بہر حال ہوتا ہے۔ بعد ازاں اس کو نظم کی ہیئت میں ’’نظمِ معرّٰی‘‘ کے نام سے تسلیم کیا گیا۔ قوافی پر بحث کے ضمن میں آزاد نظم ہمارا موضوع نہیں ہے۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ جاری ہے
جناب الف عین، جناب محمد وارث، جناب مزمل شیخ بسمل، اور دیگر اہلِ علم کی توجہ کے لئے۔
اس غرض سے کہ فقیر کے لکھے پر کڑی نظر رکھیں اور اگر کہیں کچھ غلط لکھ جاؤں تو اس کی نشان دہی فرما دیں۔
بہت آداب۔

خوب لکھا استاد محترم۔ متفق علیہ۔
 

شہزی مشک

محفلین
اگر عروض میں پڑگئے سب تو شاعری پھر صرف آورد ہی رہ جائے گی اور یہ جو اُوپر بحث میں پڑھ آیا ہوں اس سے تو قطعی طور پر یہ کہنا درست ہوگا کہ بھائی یہ آسان عروض ہے تو مشکل کیا ہوتی ہیں ہا ہا ہا۔۔۔۔۔

کتاب رکھ کر سامنے بحث کیئے جارہے ہیں۔۔۔۔ میں تو واقعی طفلِ مکتب ہوں یہ بات کہنے میں مجھے کوئی عار بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے عزیز دوستوں مشکل میں نہ ڈالیئےبلکہ ہمیں اس مشکل سے نکالیئے۔۔۔۔۔۔۔۔شکریہ
 
آسان علمِ قافیہ

اقبال کی منقولہ غزل کو لیتے ہیں:

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی​
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی​
تأمل تو تھا ان کو آنے میں قاصد​
مگر یہ بتا، طرزِ انکار کیا تھی​
تمہارے پیامی نے سب راز کھولا​
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی​
کہیں ذکر رہتا ہے اقبال تیرا​
فسوں تھا کوئی تیری گفتار کیا تھی​

تکرار، عار، انکار، سرکار، گفتار ۔ ان تمام الفاظ کا آخر ’’الف۔ر‘‘ ہے۔ یاد رہے کہ یہاں دو حرف مل کر قافیہ بناتے ہیں۔ الف چونکہ حرفِ علت ہے اس لئے حرف ماقبل الف کی حرکت کو بھی طے کر دیتا ہے۔اس نہج پر واقع ہونے والے مزید کچھ الفاظ: تار، دیدار، تلوار، پتوار، دھار، یار، درکار، سرکار؛ وغیرہ کو ہم کہیں گے کہ یہ ہم قافیہ الفاظ ہیں، اور جو الفاظ اس نہج پر واقع نہیں وہ اس غزل کی زمین میں قافیہ نہیں ہو سکتے۔ کسی دوسری غزل کی بات ہو گی تو اُس کی اپنی زمین کے حوالے سے دیکھیں گے۔

مثال کے طور پر میں ایک غزل یا قطعہ کہتا ہوں اور اس کے پہلے دو مصرعوں میں ’’درکار‘‘ اور ’’سرکار‘‘ کے قافیے لاتا ہوں۔ تو مجھے اقبال کی اس غزل کے قافیے کام نہیں دیں گے، اگرچہ موعودہ دونوں لفظ اس قافیے میں پورے اترتے ہیں۔ بلکہ وہاں مجھے ایسے الفاظ درکار ہوں گے جن کا آخری جزو ’’کار‘‘ ہو اور اس سے پہلے ’’ر ۔ ماقبل مفتوح‘‘ (ایک ایسا حرف جس پر زبر ہو اور وہ ’’ر‘‘ کو جزم دے۔ مثلاً ’’پَرکار، خَرکار‘‘ وغیرہ اور ’’ہنرکار‘‘ بھی اگر بحر اُس کی اجازت دے۔ گویا ہمیں غزل وغیرہ کے مطلع میں قافیے کا ’’اعلان‘‘ بھی کرنا ہوتا ہے۔


اس پر مزید بات کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ اقبال کی ایک اور غزل کے کچھ شعر دیکھ لئے جائیں۔

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں​
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں​
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو​
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں​
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی​
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں​

ان شعروں میں ’’چاہتا ہوں‘‘ ردیف ہے اور قوافی ہیں: انتہا، کیا، سامنا، سزا۔ان کی شرط صرف یہ ہے کہ کوئی بھی ایسا لفظ یہاں قافیہ بن سکتا ہے جس کے آخری حرف الف ہو، اور بحر اس کی اجازت دے: دعا، خدا، بقا، بلا، آسرا، ناخدا، دیکھنا، برملا، ۔، بے شمار الفاظ ہیں۔ اس لئے ان قوافی کو سابقہ اشعار کے قوافی (گفتار، سرکار، تکرار) کے مقابلے میں آسان یا ’’کھلا قافیہ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے​


جناب مزمل شیخ بسمل، جناب منیر انور، جناب الف عین، جناب محب اردو، جناب محب علوی، جناب محمد وارث، جناب محمد خلیل الرحمٰن، اور دیگر اہلِ فکرونظر۔
 
اگر عروض میں پڑگئے سب تو شاعری پھر صرف آورد ہی رہ جائے گی اور یہ جو اُوپر بحث میں پڑھ آیا ہوں اس سے تو قطعی طور پر یہ کہنا درست ہوگا کہ بھائی یہ آسان عروض ہے تو مشکل کیا ہوتی ہیں ہا ہا ہا۔۔۔ ۔۔​


جناب شہزی مشک صاحب۔ میں شرمندہ ہوں کہ اپنی پوری کوشش کے باوجود عروض کو اس سے زیادہ آسان کر کے پیش نہیں کر سکا۔ کچھ دیگر نظام بھی ہیں۔ مثلاً عبدالصمد صارم کا طریقہ، نصیر احمد کا طریقہ، پنگل کا عروض۔ اُن کو بھی دیکھ لیجئے گا۔

آورد یا آمد والا معاملہ آپ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ یہ البتہ ضرور ہے کہ شاعر کا عروضی شعور بہتر ہو تو اس کی شاعری میں نکھار آتا ہے؛ نفسیاتی تجزیہ میں نہیں کر سکتا کہ کیوں۔ مجھے تو آپ کی دعاؤں کی آرزو ہے۔
 
مثال کے طور پر میں ایک غزل یا قطعہ کہتا ہوں اور اس کے پہلے دو مصرعوں میں ’’درکار‘‘ اور ’’سرکار‘‘ کے قافیے لاتا ہوں۔ تو مجھے اقبال کی اس غزل کے قافیے کام نہیں دیں گے، اگرچہ موعودہ دونوں لفظ اس قافیے میں پورے اترتے ہیں۔ بلکہ وہاں مجھے ایسے الفاظ درکار ہوں گے جن کا آخری جزو ’’کار‘‘ ہو اور اس سے پہلے ’’ر ۔ ماقبل مفتوح‘‘ (ایک ایسا حرف جس پر زبر ہو اور وہ ’’ر‘‘ کو جزم دے۔ مثلاً ’’پَرکار، خَرکار‘‘ وغیرہ اور ’’ہنرکار‘‘ بھی اگر بحر اُس کی اجازت دے۔ گویا ہمیں غزل وغیرہ کے مطلع میں قافیے کا ’’اعلان‘‘ بھی کرنا ہوتا ہے۔

استاد محترم محمد یعقوب آسی ۔ یہاں اک سوال ذہن میں ہے۔ شاید میرے کم فہمی کہیں بہر حال۔
درکار اور سرکار میں جو ”کار“ ہے کیا اسے الگ لفظ تصور کیا جائے؟ اگر الگ لفظ تصور کیا جائے تو کیا یہ کار بجائے قافیہ کے ردیف نہیں ہوا؟
اور اگر الگ لفظ نہیں بلکہ ایک ہی لفظ ہے تو اس ”کار“ کی پابندی کی کیا وجہ ہے؟ صرف ”آر“ کی پابندی کافی نہیں؟ تھوڑی وضاحت درکار ہے۔
 
بہت عمدہ سمجھایا ہے آسی صاحب ، آپ نے اور میرے جیسے لوگوں کے لیے تو بہت ہی مفید ہے جو عروض کے متعلق بالکل بھی نہیں جانتے۔
 
درکار اور سرکار میں جو ”کار“ ہے کیا اسے الگ لفظ تصور کیا جائے؟ اگر الگ لفظ تصور کیا جائے تو کیا یہ کار بجائے قافیہ کے ردیف نہیں ہوا؟
اور اگر الگ لفظ نہیں بلکہ ایک ہی لفظ ہے تو اس ”کار“ کی پابندی کی کیا وجہ ہے؟ صرف ”آر“ کی پابندی کافی نہیں؟ تھوڑی وضاحت درکار ہے۔
میں نے یہاں کار کو الگ لفظ نہیں سمجھا، بلکہ درکار اور سرکار اپنی اپنی جگہ واحد لفظ ہیں۔ اگر کار کو الگ لفظ سمجھا جائے تو وہ شاید ردیف میں چلا جائے گا۔ اور قوافی سر اور در ہوں گے۔ اس کا اطلاق لفظی مثالوں میں نہیں ہو رہا، کسی شعر میں ہوں تو بات زیادہ واضح ہو سکتی ہے۔ یہاں بنیادی شرط ’’اعلان‘‘ ہے جس پر ابھی بات نہیں ہوئی۔

ایک ہی لفظ کا چاہے وہ مرکب لفظ ہو، ایک حصہ قافیہ اور دوسرا ردیف میں چلا جائے، تو وہ بڑی عجیب صورتِ حال ہو گی۔ ہم ان شاء اللہ اس پر بھی بات کریں گے، مگر باری آنے پر۔

بہت آداب جناب مزمل شیخ بسمل صاحب۔
 
Top