آسان عروض کے دس سبق

محمد بلال اعظم

لائبریرین
محمد بلا ل اعظم بھائی اور قیصرانی بھائی! اپنے اور آپ دونوں کے لیے ہی تو ہم نے شاعری سیکھنے کا آسان قاعدہ بنایا ہے، سو شاعری کیجیے اور شاعروں کے قریب ہوجائیے۔اب
فاعلاتن فاعلاتن فاعلات​
ایک تھپڑ ایک گھونسا ایک لات​
سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں۔​

ویسے ایک تھپڑ، ایک گھونسا، ایک لات کھانے کے بعد بندہ علم عروض تو کجا کچھ بھی سیکھنے کے قابل نہیں رہتا۔
 
صاحبو! میر انیس کے اس شعر کی لفظاً لفظاً توثیق درکار ہے:

دولت سے فقر کی ہے غنی دل فقیر کا
محتاج بادشاہ کا ہے نہ وزیر کا
’’کلیاتِ انیس‘‘ (مرتب: رانا خضر سلطان) صفحہ 686​

برائے توجہ جناب:
محمد وارث، الف عین، محب علوی، ابن سعید، @شمشاد، مدیحہ گیلانی ۔۔۔ اور دیگر اصحابِ مطالعہ۔
 
السلام علیکم۔
محترم استاد محمد یعقوب آسی کو ستانے کے لئے پھر حاضر ہوں۔ :)
آج تیسرا سبق پڑھا اور ایک اعتراض بھی سامنے آیا۔ (فاعلات کو پڑھنے کا باوجود کوشش کے بھی وقت نہیں نکال پایا ہوں۔)
خیر بات یہ ہے کہ بحر زمزمہ (یعنی فعلن فعلن والی بحر۔) اس سلسلے میں یہ کہنا چاہونگا کہ یہ دو بحور ہیں۔ پہلی تو متدارک پر خبن لگانے سے نکلتی ہے جس کے ارکان ہیں:
فعِلن فعِلن فعِلن فعِلن فعِلن فعِلن فعِلن فعِلن۔
اس میں تسکین اوسط سے کسی بھی تین متحرک حروف میں درمیان والا ساکن کیا جاسکتا ہے اور مستعمل بھی ہے۔ یعنی کسی بھی فَعِلن (001) کو فعلن بسکون عین (11) میں تقسیم کیا جائے تو درست ہوگا۔ مثالیں بہت عام ہیں۔

دوسری (عرف عام میں ہندی بحر) بحر متقارب ثرم، قبض او حذف لگانے سے حاصل ہوتی ہے جس کے ارکان ہیں:
فعلُ فعولُ فعولُ فعولُ فعولُ فعولُ فعولُ فعَل

اس میں بھی وہی تسکین اوسط کام دکھائے گا اور جہاں آپ کی مرضی ہو وہاں مسلسل تین متحرک سے درمیان والے کو ساکن کریں۔
عام طور پر اسکی یہ تراکیب مستعمل ہیں:
فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فع
فعلن فعلن فعل فعولن فعل فعولن فعلن فع
فعل فعولن فعل فعولن فعل فعولن فعلُ فعَل
فعل فعولن فعل فعولن فعل فعولن فعلن فع
وغیرہ۔۔
یہ ساری تراکیب اسی بنیادی وزن پر تسکین اوسط کے عمل سے نکلتی ہیں جو اوپر بتایا۔ مگر اس بحر کا خلط اوپر والی متدارک بحر کے ساتھ جائز نہیں ہے۔
عام طور پر ان دونوں بحور کو ایک ہی سمجھا جاتا ہے۔ مگر ایسا درست نہیں کیونکہ جس شعر میں فَعِلن ہوگا وہاں فعلُ فعولن نہیں ہوسکتا، اور جہاں فعل فعولن ہوگا وہاں فعِلن جائز نہیں۔
خود عروضی حضرات بھی اس میں ایک بہت بڑی غلطی کے مرتکب ہیں۔
استاد پروفیسر غضنفر صاحب نے بھی ان دونوں بحور کو یکجا بتا دیا ہے حالانکہ اس روش سے تو خوب اغلاط کا امکان ہے۔
امید ہے اس معاملے پر غور فرمائینگے۔
اور کسی ناگوار بات کی صورت میں بہت بہت معذرت کا طلبگار ہوں کہ ابھی طفل مکتب ہوں تو درگزر فرمائیے گا۔
طالب علم:
بسملؔ
 
مجھے اس سوال کی توقع تھی، جنابِ مزمل شیخ بسمل!
روایتی عروض اور زحافات کے بنیادی حوالوں سے آپ کے ارشادات بالکل بجا ہیں۔ تاہم میں جیسا پہلے عرض کر چکا ہوں، (اور اتفاق سے رات ہی آپ کا عروض والا صفحہ بھی دیکھا) خاص طور پر اِس بحر (زمزمہ) کے حوالے سے۔ میں نے اس پر کسی قدر تفصیل سے بات کی ہے۔ اور متداول شاعری میں حرکات و سکنات کی جو بہت سی تراتیب دیکھنے میں آ رہی ہیں اُن میں پوری پوری غزلیں سامنے رکھ کر اُن کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
میں آپ کے اس احساس سے کلی طور پر متفق ہوں کہ عروض کے کلاسیکی قواعد کا پیروکار یہاں سر پیٹ کر رہ جاتا ہے۔ تو پھر کوئی نہ کوئی ایسا فارمولا تو رہا ہو گا جو ہمیں سہولت کی طرف لے جائے۔ اسی فارمولے کو پانے کوشش ہے، اس کو آپ جس طور بھی دیکھ لیں۔ اپنی ’’عروضی بدعتوں‘‘ کا اعتراف پہلے بھی کر چکا ہوں۔ اسی لئے تو غضنفر کے تتبع میں اس بحر کو ’’بحرِ زمزمہ‘‘ کا نام دیا ہے۔

ہمارا روایتی عروض تو اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ وہاں تو یہ ہے کہ مثال کے طور پر ’’
بحر متقارب مسدس یا مثمن اثرم، مقبوض، محذوف‘‘ ہے اور دوسری ’’بحر متدارک مخبون (بشمول مزید زحافات)‘‘ ہے۔ تسکینِ اوسط کو بھی شامل کر لیجئے تو اِن کا مجموعی حاصل ایک دوسرے سے منطبق نہیں تو بھی بہت قریب ضرور پہنچ جاتا ہے۔ فاعلن کی ع ہٹا دیجئے یا فعولن کی ف، نتیجہ منطبق ہو گیا (دو سببِ خفیف)۔​
فاعلن سے جو دو سببِ خفیف ملے اُس کو بحرِ متدارک کی مزاحف صورت کہہ لیجئے، اور فعولن سے ان کے متماثل جو دو سبب خفیف حاصل ہوئے اس کو بحرِ متقارب قرار دے دیجئے۔ اطلاقی سطح دونوں کی ایک ہے۔ اب میں کیا عرض کروں۔​

آپس کی بات ہے، آگے چلتے جائیے، بحور کے نئے نام اور پھر نئے دائرے وضع ہوتے ہیں، آزاد نظم کی تقطیع کا فارمولا آتا ہے، پھر کمپیوٹر سے تقطیع کرانے کی بات آتی ہے۔ تو ہمیں کچھ نہ کچھ بدعتیں تو کرنی ہوں گی۔ اصولی طور پر آپ کا نکتہء استدلال درست تسلیم کرتے ہوئے، موجودہ اور مستقبل کے اطلاقات کو بھی پیشِ نظر رکھنے کی سفارش ضرور کروں گا۔​

دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔​

 
در اصل بات یہ ہے کہ عروضی حوالے سے بدعت تو نہ کہنا چاہئے۔ کیونکہ عروضی نظام میں آپ جتنی جدت چاہیں پیدا کرلیں۔ اوزان کا اس سے کچھ نہیں بگڑتا۔ (بگڑنا چاہئے بھی نہیں)۔ کل ملا کر بات یہ ہے کہ نئے عروضی نظام میں دو چیزوں کو نیا کہا جاسکتا ہے، پہلا اصطلاحات کا نیا نام، دوسری ریاضی تقطیع ہے۔
میرا موقف یہ ہے کہ:
ایک بحر مثلاً مفاعلاتن چار مرتبہ۔ اسے آپ روایتی عروض سے بحر رجز مرفل کہیں یا بحر مرغوب کہیں۔ وزن کا اس سے کچھ نہ بگڑا۔
تقطیع بھی آپ ارکان سے کریں یا اشاری نظام سے۔ بحر پھر بھی وہی رہے گی۔
تو بدعت کیا ہوئی؟ کچھ بھی نہیں۔
ہاں اگر نئے نام سے کوئی نئی بحر متعارف کروائی جائے تو اس سے فائدہ ہوگا یا نقصان؟ یقیناً نقصان ہی ہوگا۔
میرے مطالعے کے مطابق عروض پہلے ہی کامل منطقی ہے جس میں کوئی بدعت اسے غیر منطقی تو کر سکتی ہے مگر مزید منطقی نہیں۔
اب جیسے پہلے ایک اعتراض میں نے اٹھایا تھا کہ سالم کے ساتھ مذال یا مسبغ کا خلط ہوتا ہے۔ مگر مقصور کا نہیں۔ یہ اصول کلیہ ہے۔
مثال یوں لیں کہ غضنفر صاحب کے نظام میں سالم کے ساتھ مقصور تو ہوسکتا ہے مگر محذوف نہیں۔ اسی طرح مقصور کے ساتھ محذوف ہوسکتا ہے مگر محذوف کے ساتھ سالم نہیں آئے گا۔
غور کریں کہ میں نے اگر غزل کا پہلا ہی مصرع مقصور کہا تو اب بتائیں کہ اس میں کون کون سی اجازتیں ہونگی؟ مقصور کے ساتھ سالم بھی آسکتا ہے، اور محذوف بھی آسکتا ہے۔ حالانکہ یہ بات قطعاً غیر منطقی ہے۔ اور عروض کے صدیوں کا نظام جو اردو میں چلا آرہا ہے اس میں ایسی کوئی مثال ملنا ایسا ہے جیسے رات میں سورج دکھنا۔
اسی طرح بحر زمزمہ کا معاملہ ہے۔ (مجھے نام سے کوئی اعتراض نہیں)
لیکن اگر کوئی نیا شاعر اس روش پر چلتا ہے کہ متقارب اور متدارک دونوں کا خلط کردے تو سب سے پہلا نقصان تو یہی ہوجائے گا کہ عروضی تاریخ میں جو وزن آج تک کسی شعر کا ثابت نہیں وہ وجود میں آجائے گا۔ مگر اسکی عروضی حیثیت کیا ہوگی؟ یقیناً کچھ نہیں۔ بلکہ کوئی بھی ناقد بہت ہی آسانی سے اس شعر کو بے وزن و خارج از بحر کہہ دے گا۔
حالانکہ یہ معاملہ کسی دوسری بحر کے ساتھ نہیں ہے۔ یوں بھی اس بدعت کی کوئی منطقی وجہ نہیں سامنے آتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ سارے سبب خفیف ہیں اور کسی کو بھی ثقیل میں توڑ لیا جائے تو بھی بعض جگہ چار سے پانچ تک متحرک حروف ایک جگہ جمع ہونے کا اندیشہ ہے جو فارسی و اردو کے خلاف۔
اگر یہ کہا جائے کہ ایک چھوڑ کر ایک سبب خفیف کو سبب ثقیل بنایا جائے گا تو بھی متقارب کا مسئلہ حل ہوتا ہے مگر متدارک کے لئے الگ بحر متعارف کروانا ہوگی۔
اور بھی بہت ساری غیر منطقی خامیاں پیدا ہوتی ہیں مگر خلاصہ یہ کہ بدعت سے فائدہ نہیں نقصان ہے۔ اور کل ملا کر جو نیا کیا جاسکتا ہے وہ یہ کہ (1) ہر مروجہ مزاحف بحر کو ایک سالم نام دیا جاسکتا ہے (2) تقطیع کا نظام ارکان سے اشاری نظام پر منتقل کردیا جائے۔ مگر کسی بحر کے کسی وزن میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
کیونکہ مقصود پرانے عروض کو نئے طریقے سے سکھانا ہے، نیا عروض بنانا تو مقصود ہی نہیں۔
 
محترمی جناب مزمل شیخ بسمل صاحب،

ہاں اگر نئے نام سے کوئی نئی بحر متعارف کروائی جائے تو اس سے فائدہ ہوگا یا نقصان؟ یقیناً نقصان ہی ہوگا۔​
میرے مطالعے کے مطابق عروض پہلے ہی کامل منطقی ہے جس میں کوئی بدعت اسے غیر منطقی تو کر سکتی ہے مگر مزید منطقی نہیں۔​

دو گزارشات ہیں۔
اول: نہ صرف یہ کہ ماضی میں نئے ناموں سے سے نئی بحور متعارف ہوئی ہیں، بلکہ نئے دائرے بھی متعارف ہوئے ہیں۔ دائرہ منعکسہ اور دائرہ متوافقہ فارسی اہلِ عروض کی ایجاد ہیں۔ اور ان دونوں دائروں سے نو، نو بحریں نکلتی ہیں۔ ’’اسباق‘‘ کا صفحہ نمبر 74 اور 75 ملاحظہ ہو۔ دائرہ منعکسہ کی ساری بحروں کو نام بھی نئے دئے گئے۔
دوم: ایسے تمام علوم جنہیں سائنس (عقلیات) یا منطق سے ملایا جا سکتا ہے، ان میں تغیر اور جدت ہمیشہ کارفرما رہی ہے۔ یہاں تک کہ زمین کو پہلے چپٹا کہا گیا، پھر کرہ کہا گیا، پہلے ساکن اور بعد میں متحرک کہا گیا۔ پانی مٹی آگ ہوا کے طلسم کو توڑ کر بات نیوٹران، پروٹان، فوٹان اور پازیٹران کے دائروں سے نکل کر الفا بیٹا گاما اور ایکس شعاعوں کی حد بندیوں سے بھی آگے نکل گئی۔ بہت سی اور مثالیں ہیں۔

ایسے میں علم عروض کو عربی کے پانچ دائروں تک محدود کر دینا میرے خیال میں ایک جیتے جاگتے اور متحرک علم کو جامد کر دینا ہے۔ اساتذہ کے بعد متعارف ہونے والی صنفِ شاعری آزاد نظم تو روایتی عروض کے مطابق کسی عروضی حساب میں آ ہی نہیں سکتی۔ کئی چھوٹی بڑی باتیں اور بھی ہیں۔

(بجلی یہاں اچانک فیل ہو جایا کرتی ہے۔ اپنی ٹائپنگ کی محنت کے ضیاع سے بچنے کے لئے وہ باتیں اگلی پوسٹ میں لے جا رہا ہوں)۔
 
بڑی عجیب بات یہ بھی دیکھئے کہ پانچواں دائرہ (دائرہ مشتبہ) کی کوئی بحر بعینہ اردو میں کبھی مقبول نہیں ہو سکی، تجربات البتہ ملتے ہیں اور نہ صرف اردو میں بلکہ پنجابی میں بھی خالص عربی بحور میں شاعری کی گئی ہے، مگر وہ تجرباتی سے آگے نہیں بڑھ سکی۔
روایتی عروض میں ہم ’’فاعلن‘‘ اور ’’مستفعلن‘‘ کو حکماً دو، دو ارکان تسلیم کرتے ہیں۔ جیسے ’’فاعلن‘‘ سے ’’فعلن‘‘ اور ’’فعولن‘‘ سے ’’فعلن‘‘ کو دو الگ الگ حیثیتیں دیتے ہیں۔ اس سے عروض کا عام قاری مشکل میں پڑ جاتا ہے اور عروض سے بھاگنے لگتا ہے۔ روایتی عروض میں ’’فاعلات‘‘ اور ’’فاعلان‘‘ دو الگ الگ رکن ہیں، جب کہ اردو کی شعری صوتیات میں (میں نے اس کو املائے اصوات کا نام دیا ہے) یہ دونوں ایک سا رویہ رکھتے ہیں۔ اصلاً ’’فاعلاتک‘‘ اور ’’فاعلاتن‘‘ الگ الگ ہیں، مجھے اردو میں فاعلاتک کی ضرورت ہی نہیں۔ ’’مفاعلاتن‘‘ کو وہاں رکن تسلیم ہی نہیں کیا جاتا، یہاں بحرِ مرغوب میں کتنی ہی شاعری دستیاب ہے۔

اس لئے، مجھے اس علم کو آسان تر بنانے اور عام قاری کے لئے اشکالات سے بچتے ہوئے قابلَ فہم کی سطح پر لانے کے لئے، بدعات سے کام لینا پڑا ہے۔ اسے میری معذوری سمجھ لیجئے۔
 
پروفیسر غضنفر جب بحرِ نغمہ، بحرِ زمزمہ، بحرِ مرغوب، بحرِ اہزوجہ اور بحرِ مہزوج (ہزج سے)، بحرِ ارمولہ (رمل سے)، بحرِ ضروع (مضارع سے)، بحرِ ترانہ، بحرِ متزاج اور بحرِ مزدوج کا تعارف کراتا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ وہ روایتی عروض کو کامل و اکمل تسلیم نہیں کرتا۔
میرا تو سارا کام ہی غضنفر کے اس ’’انکار‘‘ (بلکہ ’’بغاوت‘‘) پر مبنی ہے۔ اِسے کیا کہئے گا؟۔
 
استاد محمد یعقوب آسی صاحب۔

پروفیسر غضنفر جب بحرِ نغمہ، بحرِ زمزمہ، بحرِ مرغوب، بحرِ اہزوجہ اور بحرِ مہزوج (ہزج سے)، بحرِ ارمولہ (رمل سے)، بحرِ ضروع (مضارع سے)، بحرِ ترانہ، بحرِ متزاج اور بحرِ مزدوج کا تعارف کراتا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ وہ روایتی عروض کو کامل و اکمل تسلیم نہیں کرتا۔
کتنی عجیب بات ہے نا! اب دیکھیں مجھے محض ایک بھی وجہ نہیں ملتی روایتی عروض کے نا مکمل ہونے کی۔
اگر آپ کہیں کہ اس میں بحور کی تعداد کم ہے تو میں کہونگا کہ 33 بحور تو سالم موجود ہیں جنہیں استعمال کرنا تو دور کسی کو نام تک نہیں یاد انکے، پھر زحافات سے بننے والی ہزاروں بحریں اور اوزان ہیں جن سب کا استعمال تو ممکن ہی نہیں کہ کسی بڑے سے بڑے عروضی نے بھی کیا ہو۔
پھر روایتی عروض کو کامل نہ سمجھنے کی وجہ یہ ضرور ہوسکتی ہے کہ اس میں بحور کے نام نئے سیکھنے والوں کے لئے تھوڑے مشکل واقع ہوتے ہیں ہیں۔
مثلاً:
بحر ہزج مثمن اخرب مکفوف مقصور:
مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیل
غور کریں تو اس میں بدلا کیا؟
وزن تو وہی ہے مگر نام بدل گیا اور نیا نام سالم بحر کے طور پر ”بحر اہزوجہ“ رکھ لیا گیا۔
دوسری ارمولہ:
اس میں بھی ”رمل مخبون محذوف“ کے نام کو ہٹا کر ارمولہ رکھ دیا گیا ہے۔
مگر ان سب جگہوں پر اوزان میں کوئی تبدیلی نہیں محض نئے نام رکھے گئے۔ تو محض مشکل اصطلاحات کی بنیاد پر اگر یہ کہا جائے کہ روایتی عروض مکمل نہیں تو اس کی کوئی وجہ نہیں نظر آتی۔ پھر یہی کہونگا کہ عروض تو پرانا ہی ہے۔ سکھانے کا طریقہ آسان کرنا مقصود ہے۔ نیا عروض بنانا مقصود نہیں۔
اسی طرح دیکھیں ہم اس وقت (اساتذہ و تلامذہ سب ملا کر) کتنی بحور استعمال کرتے ہیں؟
پندرہ عربی اور چار فارسی بحور بھی پوری مستعمل نہیں ہیں اور بحروں کا دائرہ چاہے جتنا بھی بڑا کرلیں ہم ان انیس بحروں سے آگے بڑھ ہی نہیں پائے باوجود عروضیوں کی کوشش کے بھی۔
پھر ان انیس بحروں میں بھی اکثر بحریں بالکل متروک ہیں، جو مستعمل ہیں ان میں بھی لگے بندھے اوزان استعمال ہوتے ہیں۔
مثلاً ایک عام مثال لیں : ہزج مسدس محذوف مفاعیل مفاعیلن فعولن کتنی مستعمل ہے۔ مگر اس کے مقابلہ میں مثمن محذوف مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن فعولن کتنے شاعروں نے استعمال کی؟ سب جانتے ہیں۔
یہی حال باقی بحروں کا بھی ہے۔ اس سب کے باوجود بھی ایک فضول دائرہ ”دائرہ منعکسہ“ بھی وجود میں آیا اور اب تو اسے وجود میں آئے زمانہ گزر گیا ہے۔ لیکن اس میں شاعری کتنی ہوئی؟ ہر ایک مکمل طور پر واقف ہے۔
تو ثابت ہوا کہ بحروں کی کمی نہیں، بلکہ زیادتی ہی ہے۔ تو اس حوالے سے عروض کو نا مکمل کہنا بھی زیادتی ہوئی، بحروں پر بحریں نکالتے جائیں، دائروں پر دائرے قائم کرتے جائیں لیکن ان سب کا عروض کو ایک بھی فائدہ نہ ہوگا۔
اسی طرح آپ کوئی بھی معاملہ اٹھا لیں اور غور کرلیں تو خود ہی ثابت ہوجائے گا کہ عروض ہر لحاظ سے مکمل ہے۔ ہاں اگر اصطلاحات کی طرٖف آئیں تو اس حوالے سے میری رائے یہ ہے کہ:
جسے اصطلاحات کا شوق ہے وہ پورا عروضی بن جائے اور زحافات کو سمجھ لے تو کسی بحر کا نام ذہن میں رکھنا مشکل نہ ہوگا۔ اس کا تجربہ میں کر چکا ہوں۔
دوسرا یہ کہ اگر کسی کو اصطلاحات یاد رکھنے میں پریشانی ہو تو اس چکر میں پڑے گا ہی نہیں اسکے لئے نئی اور پرانی اصطلاحات یکساں ہیں محض بحروں کا وزن یاد رکھ لے۔ جو آج تک ہوتا چلا آیا ہے۔ اور یہی دستور رہا ہے کہ آج تک جس شخص کو مفاعیلن کی سالم بحر ”ہزج“ کا نام نہ یاد ہوسکا ہو وہ ”اہزوجہ“ کیوں یاد رکھے گا؟
اس حوالے سے بھی روایتی عروض کامل ٹھہرا۔
تو حقیقت یہ ہے کہ روایتی عروض کو نا مکمل کہنے کی مجھے ایک بھی وجہ نظر نہیں آتی۔ ہاں تقطیع کا جو اشاری نظام ہے وہ یقیناً ایک عمدہ نظام ہے۔
مگر اس میں وزن کہیں نہیں جاتا۔ محض تقطیع کا طریقہ بدل دیا جاتا ہے۔ بحر تو وہی ہے جو صدیوں سے استعمال ہوتی آئی ہے۔ :)
 
جیسا آپ نے فرمایا
بحر ہزج مثمن اخرب مکفوف مقصور:​
مفعول مفاعیل مفاعیل مفاعیل​
غور کریں تو اس میں بدلا کیا؟​
وزن تو وہی ہے مگر نام بدل گیا اور نیا نام سالم بحر کے طور پر ”بحر اہزوجہ“ رکھ لیا گیا۔​
اس وزن تک پہنچنے اور اس کو بہ سہولت یاد رکھنے کے لئے عروض کے عام قاری کو یا تو خرب، کف، قصر سب پر عبور حاصل کرنا ہو گا۔ یا پھر ایک ایسا نام سمجھ لینا ہو گا جس میں یہ سارے زحاف اور ان کے مقامات از خود آ گئے۔ اس طرح مجھے ذاتی طور پر ’’بحر اہزوجہ‘‘ کی تفہیم آسان لگتی ہے۔

آپ فرماتے ہیں کہ
جسے اصطلاحات کا شوق ہے وہ پورا عروضی بن جائے اور زحافات کو سمجھ لے تو کسی بحر کا نام ذہن میں رکھنا مشکل نہ ہوگا۔ اس کا تجربہ میں کر چکا ہوں۔​
اس جملے میں لہجے کی کاٹ سے قطع نظر! ہر شاعر عروضیا نہیں ہوتا، ایسے چند لوگ ہوتے ہیں اور وہ بجا طور پر ممتاز ہوتے ہیں۔ آپ جس تجربے میں کامیاب ہوئے ہیں، ایک عام شاعر تو اس سے ویسے ہی خوفزدہ ہے۔

کامل و اکمل تو صرف اللہ کی کتاب ہے، انسانوں کی محنتوں اور ایجادات میں (وہ علوم ہوں یا اشیاء) تبدیلیاں ہوتی آئی ہیں، ہوتی رہیں گی۔ میرا خیال ہے، اس خالص ٹیکنیکی بحث سے اجتناب بہتر ہو گا۔
ایک نیا نظام ایک شخص کے لئے (خواہ کسی بھی وجہ سے ہو) قابلِ قبول نہیں ہے اور ایک شخص کے لئے ہے۔ اس میں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ نے عبدالصمد صارم کا طریقہ پڑھا ہے، ’’تنن تن تن، تنن تنن‘‘ وغیرہ۔ مجھے ذاتی طور پر وہ طریقہ ’’بہت اچھا‘‘ نہیں لگا، تاہم اس میں ایک بڑی خاص چیز ہے۔ ایک مثال سے وضاحت کروں گا۔
ہمارے یہاں ایک بالکل نیا شاعر ہے ’’شکیل شاکی‘‘ وہ مار کھا جاتا تھا تقطیع میں۔ میں نے اس کو عبدالصمد صارم کا کتابچہ دیا کہ یہ پڑھو اور اس کو زیرو ون زیرو سے ملا کر اپنے شعروں پر لاگو کر لو۔ کچھ دنوں بعد ملا تو خود اپنے شعروں میں انگلی رکھ کر بتا رہا تھا کہ یہاں کاف زائد ہے، یہاں ایک حرف کم لگ رہا ہے، وغیرہ۔
 
ایک چیز جو مجھے مشکل لگی، میں نے یہ سوچا کہ فلاں فلاں فلاں کو بھی مشکل لگی ہو گی۔ چلئے اس میں کچھ ایسی چیز ڈھونڈتے ہیں جو اس کو آسان بنا دے۔ اور ایک نو آموز شاعر بھی اس چیز کو بہ سہولت استعمال کر سکے اور اپنے اشعار کو اوزان و بحور کے مطابق ڈھال سکے۔ یہ چیز مفید ثابت ہوئی ہے۔
 
ان اسباق میں آپ جوں جوں آگے جائیں گے، ایک مرحلہ آئے گا کہ آپ اس کو شاید کلی طور پر رد کر دیں۔ خاص طور پر رباعی کے اوزان میں تو آپ کو اچھا خاصا دھچکا لگے گا۔ اس سب کچھ کے لئے پیشگی معذرت خواہ ہوں۔

خوش رہئے۔ اور فقیر کو دعائیں دیجئے۔
 
ایک نیا نظام ایک شخص کے لئے (خواہ کسی بھی وجہ سے ہو) قابلِ قبول نہیں ہے اور ایک شخص کے لئے ہے۔ اس میں تو کوئی مسئلہ نہیں۔ آپ نے عبدالصمد صارم کا طریقہ پڑھا ہے، ’’تنن تن تن، تنن تنن‘‘ وغیرہ۔ مجھے ذاتی طور پر وہ طریقہ ’’بہت اچھا‘‘ نہیں لگا، تاہم اس میں ایک بڑی خاص چیز ہے۔ ایک مثال سے وضاحت کروں گا۔​
ہمارے یہاں ایک بالکل نیا شاعر ہے ’’شکیل شاکی‘‘ وہ مار کھا جاتا تھا تقطیع میں۔ میں نے اس کو عبدالصمد صارم کا کتابچہ دیا کہ یہ پڑھو اور اس کو زیرو ون زیرو سے ملا کر اپنے شعروں پر لاگو کر لو۔ کچھ دنوں بعد ملا تو خود اپنے شعروں میں انگلی رکھ کر بتا رہا تھا کہ یہاں کاف زائد ہے، یہاں ایک حرف کم لگ رہا ہے، وغیرہ۔​
یہاں بھی بحر یا وزن کہیں نہیں گیا۔ صرف تقطیع کا طریقہ بدلا اور یہی ایک واحد چیز ہے جو اس وقت ہر نو آموز کا مسئلہ ہے۔ اس میں جس کو جیسے سہولت ہو ویسے تقطیع کرلے۔ مگر عروضی اصولوں میں تبدیلی کی تو کوئی ضرورت ہی نہیں۔
اس وزن تک پہنچنے اور اس کو بہ سہولت یاد رکھنے کے لئے عروض کے عام قاری کو یا تو خرب، کف، قصر سب پر عبور حاصل کرنا ہو گا۔ یا پھر ایک ایسا نام سمجھ لینا ہو گا جس میں یہ سارے زحاف اور ان کے مقامات از خود آ گئے۔ اس طرح مجھے ذاتی طور پر ’’بحر اہزوجہ‘‘ کی تفہیم آسان لگتی ہے۔
ہر شاعر عروضیا نہیں ہوتا، ایسے چند لوگ ہوتے ہیں اور وہ بجا طور پر ممتاز ہوتے ہیں۔ آپ جس تجربے میں کامیاب ہوئے ہیں، ایک عام شاعر تو اس سے ویسے ہی خوفزدہ ہے۔
اس کا جواب اوپر دے چکا ہوں:
اگر کسی کو اصطلاحات یاد رکھنے میں پریشانی ہو تو اس چکر میں پڑے گا ہی نہیں اسکے لئے نئی اور پرانی اصطلاحات یکساں ہیں محض بحروں کا وزن یاد رکھ لے۔ جو آج تک ہوتا چلا آیا ہے۔ اور یہی دستور رہا ہے کہ آج تک جس شخص کو مفاعیلن کی سالم بحر ”ہزج“ کا نام نہ یاد ہوسکا ہو وہ ”اہزوجہ“ کیوں یاد رکھے گا؟

خیر۔۔ باقی باتوں سے قطع نظر۔ مجھے آپ کا نظام خاصا پسند آیا۔ مگر اس نظام میں کہیں بھی کسی عروضی بدعت کی ضرورت نہیں۔ جدت کے حوالے سے میں عرض کر ہی چکا ہوں کہ ایک ”تقطیع“۔ اور دوسرا ”اصطلاحات“ ان دو چیزوں کے علاوہ کسی چیز کے رد و بدل سے عروض کو کوئی فائدہ نہیں۔ کیونکہ عروض ویسے ہی کامل ہے جیسا اوپر عرض کیا۔
ساری بحث کا مقصد صرف اپنے علم میں اضافہ کرنا تھا۔ اور کچھ بھی نہیں۔ کسی بات سے بھی اگر طبیعت کو تکلیف ہوئی تو بہت معذرت۔
اللہ سلامت رکھیں آپ کو۔
انشا اللہ اگلا سبق پڑھ کر حاضر ہوتا ہوں۔ ;)
 
ان اسباق میں آپ جوں جوں آگے جائیں گے، ایک مرحلہ آئے گا کہ آپ اس کو شاید کلی طور پر رد کر دیں۔ خاص طور پر رباعی کے اوزان میں تو آپ کو اچھا خاصا دھچکا لگے گا۔ اس سب کچھ کے لئے پیشگی معذرت خواہ ہوں۔

خوش رہئے۔ اور فقیر کو دعائیں دیجئے۔

ارے ایسا کچھ نہیں۔ آپ استاد ہیں میرے۔ بڑے بھی ہیں اور قابل احترام بھی ہیں۔ نظریاتی اختلافات لیکر میں بلا تکلف ہر کسی کے سامنے حاضر ہوجاتا ہوں۔ یہ میری فطرت ہے۔ مگر اس کا مقصد کسی کو تکلیف پہنچانا ہرگز نہیں ہوتا۔ میں جدت کے قائلین میں سے ہوں۔
جس کو بھی جدت کی طرف بڑھتا ہوا دیکھوں اس کے ساتھ تحقیقی کام کرنے کے لئے اس کے ساتھ ہو لینے کی کوشش کرتا ہوں۔
”ہندی بحر کی حقیقت“ میرا مضمون اگر آپ پڑھیں تو میں نے اس میں جگہ جگہ عروض کی مستند ترین کتب میں اغلاط کی نشاندہی کی ہے۔ اور لمبی چوڑی تراکیب کے دریا کو کوزے میں بند کرکے ایک اصول کلیہ پیش کیا ہے۔ لیکن یہ جدت در حقیقت جدت نہیں بلکہ میں نے ایک صدی پرانے عروض کی مشکل کو ہزار سال پرانے عروض کے ایک اصول ”تسکین اوسط“ سے حل کیا ہے۔ یعنی نئے عروض کو پرانے عروض نے آسان کردیا۔۔ اب اگر بر صغیر کے عروضیوں نے ایس فاش غلطیاں کر چھوڑی جس کی وجہ سے عروض مشکل بنا تو اس میں عروض کی نہیں عروض کے استادوں کی کم فہمی تھی۔ کیونکہ: ”سمجھا نہ میں تو فہم کا میری قصور تھا“۔ :) عروض کا قصور نہیں تھا۔
 
علمِ عروض سے دل چسپی رکھنے والوں دوست یہ مضمون ضرور پڑھیں۔
یہ مضمون پر ڈاکٹر جواد علی کی عربی تصنیف ’’المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام‘‘کے ایک باب کا اردو ترجمہ ہے۔
مترجم: عمر فاروق، ریسرچ ایسوسی ایٹ۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد۔

مذکورہ یونیورسٹی کا تحقیقی مجلہ ’’معیار‘‘ جلد نہم ۔ صفحہ نمبر 159 تا 180
http://www.iiu.edu.pk/mayar-vol-9.php?action=next
 
Top