آخر يہودى كيوں دنيا پر چھائے ہوئے ہيں؟

نیلم

محفلین
آخر يہودى كيوں دنيا پر چهائے ہوئے ہيں؟؟

اگرچہ أعداد و شمار تو مدتوں سےہى چيخ چيخ كر حقائق بتلاتے رہے ہيں مگر بہت سے لوگ اس معاملہ كو اپنے ہى انداز اور پسند كے مطابق ديكهتے ہيں۔
اچها آپكو وه زمانہ تو ياد ہى ہوگا ناں جب اس دنيا كے اكثر و بيشتر ملكوں پر مسلمانوں كى حكومت ہوا كرتى تهى۔
تو پهر ايسا كيوں ہوا كہ مسلمان اپنى یہ قدرو منزلت كهو بيٹهے؟ اور كيوں آج دنيا كے بيشتر نظام اور وسائل پر يہودى قابض ہيں؟
آئيے اور ميرے اس آرٹيكل ميں ديئے گئے حقائق اور تجزيات پر غور كيجيئے، حقيقت كا پتہ آپكو خودبخود لگ جائے گا۔ اس صفحہ پر دی ہوئی اکثر معلومات کا تعلق مستند مصادر ہے، عمومی طور پر مذکورہ اشخاص اور اداروں کے بارے میں ويكيپيڈيا پر صفحات موجود ہیں۔
حقيقتيں أعداد و شمار كے آئينے ميں
دنيا بهر ميں يہوديوں كى كل تعداد 1 كروڑ 40 لاكھ، اور اس تعداد كى تقسيم مختلف ملكوں ميں آباد كے لحاظ سے
• امريكا ميں 70 لاکھ۔
• ايشيائى ملكوں ميں 50 لاکھ ۔
• يورپ ميں 20 لاکھ۔
• افريقى ملكوں ميں 1 لاکھ۔
دنيا بهر ميں مسلمانوں كى كل تعداد ، 1 ارب 50 كروڑ ، اس تعداد كى تقسيم مختلف ملكوں ميں آباد كے لحاظ سے
• أمريكا ميں 60 لاکھ۔
• ايشيا اور مشرق وسطى كے ملكوں اور رياستوں ميں كل تعداد 1 ارب
• يورپ ميں 4 كروڑ 40 لاکھ۔
• افريقى ملكوں ميں 40 كروڑ
اس دنيا كى 20 فيصد آبادى مسلمانوں كى ہے
اس دنيا ميں ہر ايک ہندو كے مقابلے ميں دو مسلمان ہيں۔
اس دنيا ميں ہر ايک بدھ مت شخص كے مقابلے ميں دو مسلمان ہيں۔
اس دنيا ميں ہر ايک يہودى شخص كے مقابلے ميں ايک سو سات مسلمان ہيں۔
اس كے باوجود بهى صرف 1 كروڑ 40 لاکھ یہودى ڈيڑھ ارب مسلمانوں سے زياده طاقتور ہيں۔ ايسا كيوں ہے؟
آئيے حقائق اور اعداد و شمار كو مزيد پلٹتے ہيں۔
جديد تاريخ كے كچھ روشن نام:
• البرٹ آئنسٹائن: يہودي۔
• سيگمنڈ فرائڈ: يہودي۔
• كارل ماركس: يہودي۔
• پال سموئيلسن: يہودي۔
• ملٹن فريڈمين: يہودي۔
طب و جراحت كى اہم ايجادات
• ٹيكہ لگانے والى سرنج اور سوئى كا مؤجد بنجمن روبن: يہودي۔
• پوليو كے علاج كا مؤجد جوناس سالک: يہودي۔
• خون كے كينسر (لوكيميا) كے علاج كا مؤجد جيرٹرود ايليون: يہودي۔
• يرقان كا پتہ لگانے اور اسكے علاج كا مؤجد باروخ سموئيل بلومبرگ: يہودي۔
• بيكٹيريائى اور جنسى امراض(Syphilis) كے علاج كا مؤجد پال اہرليخ: يہودي۔
• متعدى امراض كے علاج كا مؤجد ايلي ميچينكوف: يہودي۔
• غدود كے امراض اور ريسرچ كا اہم ترين نام اينڈريو شالي: يہودي۔
• نفسياتى امراض ميں ريسرچ كا اہم ترين نام ايرون بک: يہودي۔
• مانع حمل دواؤں كا مؤجد گريگوري بيكس: يہودي۔
• انسانى آنكھ اور اسكے نيٹ ورک ميں ريسرچ كا اہم ترين نام جورج والڈ: يہودي۔
• كينسر كے علاج ميں ريسرچ كا اہم ترين نام سٹينلى كوہين : يہودي۔
• گردوں كى دهلائى كا مؤجد وليم كلوف: يہودي۔
ايجادات جنہوں دنيا كو بدل كر رکھ ديا:
• كمپيوٹر كے سى پى يو كا مؤجد سٹينلى ميزر : يہودي۔
• ايٹمى رى ايكٹر كا مؤجد ليو زيلنڈ: يہودي۔
• فائبر آپٹيكل شعاؤں كا مؤجد پيٹر شلز: يہودي۔
• ٹريفک سگنل لائٹس كا مؤجد چارلس ايڈلر: يہودي۔
• سٹينليس سٹيل كا مؤجد (سٹينليس سٹيل) بينو سٹراس: يہودي۔
• فلموں ميں آواز كا مؤجد آيسادور كيسى: يہودي۔
• مائكروفون اور گراموفون كا مؤجد ايمائيل برلائينر: يہودي۔
• ويڈيو ريكارڈر(وى سى آر) كا مؤجد چارلس جينسبرگ: يہودي۔
مشہور مصنوعات اور برانڈ:
• پولو- رالف لورين: يہودي۔
• ليوائس جينز- ليوائى ستراوس: يہودي۔
• سٹاربكس- ہوارڈ شولتز: يہودي۔
• گوگل- سرجي برين: يہودي۔
• ڈيل- مايكل ڈيل: يہودی۔
• اوريكل- لاري اليسون: يہودي۔
• DKNY- ڈونا كاران: يہوديہ ۔
• باسكن اينڈ روبنز- إيرف روبنز: يہودي۔
• ڈانكن دونٹس- ويليام روزينبرگ: يہودي۔
ملكى و عالمى سياست كے اہم نام:
• ہنرى كسنجر امريكى وزير خارجه : يہودي۔
• رچارڈ ليوين ييل يونيورسٹى كا سربراه : يہودي۔
• ايلان جرينزپان امريكى ريزرو فيڈرل كا چيئرمين : يہودي۔
• ميڈلين البرايٹ أمريكا كى وزيرِ خارجہ : يہوديہ۔
• جوزف ليبرمين امريكا كا مشہور سياستدان : يہودي۔
• كاسپر وينبرگر امريكا كا وزيرِ خارجہ : يہودي۔
• ميكسم ليٹوينوف سوويت يونين كا وزير برائے امورِ خارجہ : يہودي۔
• ديويڈ مارشل سنگاپور كا وزيرِ اعظم: يہودي۔
• آيزک آيزک آسٹريليا كا صدر: يہودي۔
• بنجامن ڈزرائيلى يونائيٹڈ كنگڈم كا وزيرِ اعظم : يہودي۔
• ييفيگني بريماكوف روس كا وزيرِ اعظم: يہودي۔
• بيري گولڈ واٹر امريكا كا مشہور سياستدان: يہودي۔
• جورج سمبايو پرتگال كا صدر : يہودي۔
• ہرب گرے كينيڈا كا نائب صدر : يہودي۔
• پيير مينڈس فرانس كا وزيرِ اعظم : يہودي۔
• مائيكل ہوارد برطانيه كا وزير مملكت : يہودي۔
• برونو كريسكى آسٹريا كا چانسلر : يہودي۔
• روبرٹ روبين امريكا كا وزير خزانه : يہودي۔
• جورج سوروس هنگرى اور امريكا معزز سرمايه كار: يہودي۔
• وولٹر أنينبرگ امريكا ميں سوشل ويلفيئر اور چيريٹى ميں مشہور شخصيت: يہودي۔
ميڈيا كے نماياں نام:
• سى اين اين- وولف بليٹزر: يہودي۔
• اے بى سى نيوز- بربارا والٹرز: يہوديہ۔
• واشنگٹن پوسٹ – يوجين ميئر: يہودي۔
• ٹائم ميگيزين – ہنري گرونوالڈ: يہودي۔
• واشنگٹن پوسٹ – كيتهرين گراہم: يہوديہ۔
• نيو يارک ٹائمز- جوزف ليليفيڈ : يہودي۔
• نيو يارک ٹائمز – ميكس فرينكل: يہودي۔
واضح رہے كہ اوپر ديئے گئے نام محض چند مثاليں ہيں ناكہ مجموعى طور پر ان سارے يہوديوں كا ذكر جن كى ايجادات يا مصنوعات سے بنى نوع آدم كا اپنى روزمره كى زندگى ميں كسى نہ كسى طور پالا پڑتا ہے۔
كچھ اور حقائق:
# آخرى 105 سالوں ميں، 1 كروڑ اور 40 لاكھ يہوديوں نے 180 نوبل پرائز حاصل كيئے جبكہ اسى عرصہ ميں ڈيڑھ ارب مسلمانوں نے صرف اور صرف 3 نوبل پرائز حاصل كيئے۔
# اسى بات كو دوسرى طرح ليتے ہيں: اوسطاً ہر 77778 يہودى (80 ہزار سے كم) كے حصہ ميں ايک نوبل پرائز آيا جبكہ مسلمانوں ميں ايک نوبل پرائز ہر 50 كروڑ مسلمانوں كے پاس صرف ايک آيا۔
# اب اسى بات كو ايک اور طريقے سے ديكهتے ہيں: يہودى اگر نوبل پرائز مسلمانوں جيسے تناسب سے حاصل كرتے تو ان كے پاس صرف 0.028 نوبل پرائز ہوتے (يعنى كہ ايک نوبل پرائز كا محض ايک تہائى حصہ)۔
# آيئے اسى بات كو ايک اور طرح سے ديكهتے ہيں: اگر مسلمانوں نے اس تناسب سے يہ انعام حاصل كيئے ہوتے كہ جس تناسب سے يہوديوں نے حاصل كيئے ہيں تو اس وقت مسلمانوں كے پاس 19286 نوبل پرائز ہوتے۔
ليكن كيا يہودى اس طرح اپنى كوئى شناخت بنا پاتے؟
اور كيا يہ شناخت محض اتفاقيہ ہے؟ فراڈ ہے؟ سازش سے ہے؟ يا سفارش سے ہے؟
اور پهر مسلمان اپنى عظمتوں سے گر كر س قدر تنزلى كا شكار كيوں ہوئے جبكہ تعداد ميں واضح فرق موجود ہے؟
آيئے چند اور حقائق ديكهتے ہيں شايد بات سمجھ ميں آ جائے:
# تمام اسلامى ملكوں ميں 500 يونيورسٹى ہيں۔
# جبكہ صرف امريكا ميں 5758 يونيورسٹى ہيں۔
# اور انڈيا ميں 8407 يونيورسٹى ہيں۔
# كسى بهى اسلامى ملک كى يونيورسٹى كا نام دنيا كى پانچ سو (500) بہترين يونيورسٹيوں كى لسٹ ميں شامل ہى نہيں ہے۔
# جبكه صرف اسرائيل كى 6 يونيورسٹى دنيا كى پانچ سو (500) بہترين يونيورسٹيوں كى لسٹ ميں شامل ہيں۔
# مسيحى ملكوں ميں پڑهے لكهے لوگوں كى شرح تناسب 90%
# مسلمان ملكوں ميں پڑهے لكهے لوگوں كى شرح تناسب 40%
# مسيحى ملكوں ميں 15 ملک ايسے ہيں جہاں پڑهے لكهے لوگوں كى شرح تناسب 100% ہے ۔
# مسلمان ملكوں ميں ايسا كوئى ايک ملک بهى نہيں ہے جہاں پڑهے لكهے لوگوں كى شرح تناسب 100% ہو۔
# مسيحى ملكوں پرائمرى تک تعليم حاصل كرنے والوں كا تناسب 98% ہے ۔
# مسلمان ملكوں پرائمرى تک تعليم حاصل كرنے والوں كا تناسب 50% ہے۔
# مسيحى ملكوں يونيورسٹى ميں داخلے كا شرح تناسب 40% ہے ۔
# مسلمان ملكوں يونيورسٹى ميں داخلے كا شرح تناسب 2% ہے۔

نتيجہ خود اخذ كر ليجيئے

مصنف : محمّد سلیم
 
نیلم بہنا یہودی واقعی بہت ذہین لوگ ہوتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے شائد اوپر دی گئی فہرست میں خلیل جبران کا نام شامل نہیں ہے یہودی صرف اور صرف پیدائشی ہوتا ہے کوئی یہودیت قبول نہیں کرسکتا ہے۔
میرا جہاں تک دماغ کام کرتا ہے سپین میں جو مسلمانوں کا علمی ذخیرہ تھا اس پر ان یہودیوں نے بہت کام کیا ہے اور بالآخر بحیثیت ایک عظیم علمی قوم کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔
 

نیلم

محفلین
نیلم بہنا یہودی واقعی بہت ذہین لوگ ہوتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے شائد اوپر دی گئی فہرست میں خلیل جبران کا نام شامل نہیں ہے یہودی صرف اور صرف پیدائشی ہوتا ہے کوئی یہودیت قبول نہیں کرسکتا ہے۔
میرا جہاں تک دماغ کام کرتا ہے سپین میں جو مسلمانوں کا علمی ذخیرہ تھا اس پر ان یہودیوں نے بہت کام کیا ہے اور بالآخر بحیثیت ایک عظیم علمی قوم کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔
جی بھائی اُن کا ٹرگٹ ہی کامیابی ہے اور یہ کامیابی اُنہوں نے تعلیم اور لگن کے زریعےحاصل کی ،،
 
نیلم بہنا یہودی واقعی بہت ذہین لوگ ہوتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے شائد اوپر دی گئی فہرست میں خلیل جبران کا نام شامل نہیں ہے یہودی صرف اور صرف پیدائشی ہوتا ہے کوئی یہودیت قبول نہیں کرسکتا ہے۔
میرا جہاں تک دماغ کام کرتا ہے سپین میں جو مسلمانوں کا علمی ذخیرہ تھا اس پر ان یہودیوں نے بہت کام کیا ہے اور بالآخر بحیثیت ایک عظیم علمی قوم کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔

اور یہ بہت سا وہ ذخیرہ ہے جو سپین سے چرایا گیا تھا۔ مگر ہم نے اسلام کو چھوڑا اور ایسی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک سعودی شہزادہ اڑن محل خرید سکتا ہے۔ مگر وہ اپنے شامی اور فلسطینی بھائیوں کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔ جب اسلام اور اپنے اسلاف کو پس پشت ڈال دیا جائےتو اسی طرح ذلیل و رسوا ہوا جاتا ہے۔
 

نیلم

محفلین
نیلم بہنا یہودی واقعی بہت ذہین لوگ ہوتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں ہے شائد اوپر دی گئی فہرست میں خلیل جبران کا نام شامل نہیں ہے یہودی صرف اور صرف پیدائشی ہوتا ہے کوئی یہودیت قبول نہیں کرسکتا ہے۔
میرا جہاں تک دماغ کام کرتا ہے سپین میں جو مسلمانوں کا علمی ذخیرہ تھا اس پر ان یہودیوں نے بہت کام کیا ہے اور بالآخر بحیثیت ایک عظیم علمی قوم کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔
میرا خیال ہے بھائی آپ کو غلط فہمی ہو رہی ہے خلیل جبران یہودی نہیں ایک عیسائی تھا،،،اُن کے والد عیسائی پادری تھے اور خلیل جبران نے پادریوں کے پاس انجیل پڑھی تھی،،اور تفسیر بھی :)
تفصیل کے ساتھ آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں ،،،

،،،
جبران عیسائی اکثریتی شہر بشاری میں پیدا ہوئے۔ جبران کے والد ایک عیسائی پادری تھے۔[4] جبکہ جبران کی ماں کملہ کی عمر 30 سال تھی جب جبران کی پیدائش ہوئی، والد جن کو خلیل کے نام سے جانا جاتا ہےکملہ کے تیسرے شوہر تھے۔ [5] غربت کی وجہ سے جبران نے ابتدائی سکول یا مدرسے کی تعلیم حاصل نہیں کی، لیکن پادریوں کے پاس انھوں نے انجیل پڑھی، انھوں نے عربی اور شامی زبان میں انجیل کا مطالعہ کیا اور تفسیر پڑھی۔
جبران کے والد پہلے مقامی طور پر نوکری بھی کرتے تھے، لیکن بے تحاشہ جوا کھیلنے کی وجہ سے قرضدار ہوئے اور پھر سلطنت عثمانیہ کی ریاست کی جانب سے مقامی طور پر انتظامی امور کی نوکری کی۔[6]اس زمانے میں جس انتظامی عہدے پر وہ فائز ہوئے وہ ایک دستے کے سپہ سالار کی تھی، جسے جنگجو سردار بھی کہا جاتا تھا۔[7]
1891ء یا اسی دور میں جبران کے والد پر عوامی شکایات کا انبار لگ گیا اور ریاست کو انھیں معطل کرنا پڑا اور ساتھ ہی ان کی اپنے عملے سمیت احتسابی عمل سے گزرنا پڑا۔ [8] جبران کے والد قید کر لیے گئے۔ [2] اور ان کی خاندانی جائیداد بحق سرکار ضبط کر لی گئی۔ اسی وجہ سے کملہ اور جبران نے امریکہ ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا جہاں کملہ کے بھائی رہائش پذیر تھے۔گو جبران کے والد کو 1894ء میں رہا کر دیا گیا مگر کملہ نے جانے کا فیصلہ ترک نہ کیا اور 25 جون 1895ء کو خلیل، اپنی بہنوں ماریانا اور سلطانہ، اپنے بھائی پیٹر اور جبران سمیت نیویارک ہجرت کر لی۔[6]
[ترمیم]
 
میرا خیال ہے بھائی آپ کو غلط فہمی ہو رہی ہے خلیل جبران یہودی نہیں ایک عیسائی تھا،،،اُن کے والد عیسائی پادری تھے اور خلیل جبران نے پادریوں کے پاس انجیل پڑھی تھی،،اور تفسیر بھی :)
تفصیل کے ساتھ آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں ،،،

،،،
جبران عیسائی اکثریتی شہر بشاری میں پیدا ہوئے۔ جبران کے والد ایک عیسائی پادری تھے۔[4] جبکہ جبران کی ماں کملہ کی عمر 30 سال تھی جب جبران کی پیدائش ہوئی، والد جن کو خلیل کے نام سے جانا جاتا ہےکملہ کے تیسرے شوہر تھے۔ [5] غربت کی وجہ سے جبران نے ابتدائی سکول یا مدرسے کی تعلیم حاصل نہیں کی، لیکن پادریوں کے پاس انھوں نے انجیل پڑھی، انھوں نے عربی اور شامی زبان میں انجیل کا مطالعہ کیا اور تفسیر پڑھی۔
جبران کے والد پہلے مقامی طور پر نوکری بھی کرتے تھے، لیکن بے تحاشہ جوا کھیلنے کی وجہ سے قرضدار ہوئے اور پھر سلطنت عثمانیہ کی ریاست کی جانب سے مقامی طور پر انتظامی امور کی نوکری کی۔[6]اس زمانے میں جس انتظامی عہدے پر وہ فائز ہوئے وہ ایک دستے کے سپہ سالار کی تھی، جسے جنگجو سردار بھی کہا جاتا تھا۔[7]
1891ء یا اسی دور میں جبران کے والد پر عوامی شکایات کا انبار لگ گیا اور ریاست کو انھیں معطل کرنا پڑا اور ساتھ ہی ان کی اپنے عملے سمیت احتسابی عمل سے گزرنا پڑا۔ [8] جبران کے والد قید کر لیے گئے۔ [2] اور ان کی خاندانی جائیداد بحق سرکار ضبط کر لی گئی۔ اسی وجہ سے کملہ اور جبران نے امریکہ ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا جہاں کملہ کے بھائی رہائش پذیر تھے۔گو جبران کے والد کو 1894ء میں رہا کر دیا گیا مگر کملہ نے جانے کا فیصلہ ترک نہ کیا اور 25 جون 1895ء کو خلیل، اپنی بہنوں ماریانا اور سلطانہ، اپنے بھائی پیٹر اور جبران سمیت نیویارک ہجرت کر لی۔[6]
[ترمیم]
معلومات دینے کا شکریہ روحانی بابا خوش ہوئے
 

arifkarim

معطل
یہودی صرف اور صرف پیدائشی ہوتا ہے کوئی یہودیت قبول نہیں کرسکتا ہے۔
بالکل جھوٹ! یہودیت کی ساری تاریخ مختلف قوموں سے یہودی مذہب اختیار کرنے والوں سے بھری پڑی ہے۔ سوائے چند کٹر قسم کے یہودی فرقوں کے علاوہ باقی تمام یہودی فرقے نئے یہودیوں کو مذہبی بنیادوں پر تسلیم کرتے ہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Conversion_to_Judaism#Overview

یہاں آپ تمام مشہور اسلام سے یہودیت اختیار کرنے والوں کی لسٹ دیکھ سکتے ہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/List_of_converts_to_Judaism#From_Islam

میرا جہاں تک دماغ کام کرتا ہے سپین میں جو مسلمانوں کا علمی ذخیرہ تھا اس پر ان یہودیوں نے بہت کام کیا ہے اور بالآخر بحیثیت ایک عظیم علمی قوم کی حیثیت سے سامنے آئے ہیں۔
بے شک۔ آج جس طرح عالم اسلام میں اسپین کے اسلامی عہدِ زریں کے گُن گائے جاتے ہیں انکا ذمہ دار بھی یہی اُندلسی یہودی ہی ہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Golden_age_of_Jewish_culture_in_Spain

اور یہ بہت سا وہ ذخیرہ ہے جو سپین سے چرایا گیا تھا۔ مگر ہم نے اسلام کو چھوڑا اور ایسی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک سعودی شہزادہ اڑن محل خرید سکتا ہے۔ مگر وہ اپنے شامی اور فلسطینی بھائیوں کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔ جب اسلام اور اپنے اسلاف کو پس پشت ڈال دیا جائےتو اسی طرح ذلیل و رسوا ہوا جاتا ہے۔
چُرایا گیا؟ علم کبھی چُرایا نہیں جاتا بلکہ پھیلانے سے مزید بڑھتا ہے! اُنہوں نے اس زمانہ کے علوم کو پرنٹنگ پریس کی مدد سے پھیلایا۔ مسلمان جاہل مولویوں کی خواہش پر پرنٹنگ پریس کو حرام کہہ کر کئی صدیوں تک بین نہیں کیا!
http://www.answering-islam.org/Authors/Roark/science_islam.htm

یہود انبیاء کی نسل سے ہیں........جینیس تو ہوں گے ہی.......مگر evil genius
evil genius? پولیو ویکسین اور لاتعداد ایجادات بنانے والے یہ یہودی جنہوں نے تمام بنی نو انسان کی خدمت کی کو آپ بُری ذہانت سمجھتے ہیں؟
 
لارنس جوزف ایلی سن ، اوریکل کا بانی اور سربراہ یہودی، یہودیوں کی کامیابی ان کی تعلیم، آگے بڑھنے کی صلاحیت اور بریانی پکانے کی ترکیب جاننے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ والی بریانی مسلمانوں کو پکانا نہیں آتی ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
جی بھائی اُن کا ٹارگٹ ہی (دنیوی) کامیابی ہے اور یہ کامیابی اُنہوں نے تعلیم اور لگن کے ذریعےحاصل کی ،،
مسلمان اس وقت تک دنیا میں سیاسی اور علمی میدان میں عروج پر رہے جب تک وہ قرآن اور اس کی تعلیمات سے جڑے رہے۔ قرآن، کتاب ہدایت کے ساتھ ساتھ اُم الکتاب بھی ہے۔ جملہ علوم کے سوتے اسی سے پھوٹتے ہیں۔ کاش کوئی یہان سائنس و ٹیکنالوگی کے میدان مین مسلمانوں کی ان کامیابیوں کی فہرست بھی پیش کرسکے، جو آج کے جدید علمی حاصلات کی بنیاد ہیں۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہوکر
دوسری بات یہ کہ من حیث الامت، مسلمانوں کا ٹارگٹ کبھی بھی دنیوی کامیابی کا حصول نہیں رہا۔ مسلمانوں کا اصل ٹارگٹ اُخروی کامیابی ہی رہا ہے اور رہنا بھی چاہئے، خواہ یہ دو دن کی دنیا اُن کے لئے ”ناکامیوں کا مسکن“ ہی کیوں نہ بن جائے۔ دنیا میں جتنے انبیاء علیہ السلام آئے، ان میں سے کتنوں نے ”دنیوی کامیابی“ حاصل کی؟ بہت کم نے۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب بھی مسلمان من حیث القوم، قرآن سے پوری طرح جڑ کر اپنی اصل منزل آخرت کی کامیابی کے لئے کوشاں رہے، اللہ نے انہیں دنیوی کامیابیوں سے بھی سرفراز کیا۔اقوام عالم کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ دنیا میں ہر قوم پر عروج و زوال آتے رہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ عہد مسلمانوں کے زوال کا زمانہ ہے۔ لیکن یہ کبھی عروج پر بھی تھے اور صدیوں تک بام عروج پر رہے۔ یہودی قوم دنیا میں کتنی صدیون تک عروج پررہے ہیں ؟؟؟ گزشتہ دوہزار سال کی معلوم تاریخ میں مسلمانوں اور یہودیوں کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا موازنہ کرکے ہی یہ ”انصاف“ کیا جاسکتا ہے کہ دنیا میں بھی کون سی ”قوم“ برتر رہی ہے۔
کسی ”ایک میچ“ کے اعداد و شمار جاری کرکے کسی ملک کی کرکٹ ٹیم تک کو افضل یا برتر نہیں قرار دیا جاتا، بلکہ اس کے لئے اب تک کھیلے جانے والے تمام بین الاقوامی میچوں کے ریکارڈز کا موازنہ کیا جاتا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم مسلمان صرف دو تین صدی کے حالیہ ”زمانہ زوال“ پہ شرمندہ ہوتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم ان سے کہیں زیادہ عرصہ تک دنیا کے علمی و سیاسی میدان میں امام رہے ہیں۔ اور آج کے ”امام“ کامیابی کی ”ان چند صدیوں“ سے کہیں زیادہ صدیوں تک ”ڈارک ایج“ میں ڈوبے رہے ہیں۔ ”مسئلہ“ یہ ہے کہ ہم قوموں کے ” عرصہ زندگی“ کو بھی انسانوں کے ”عرصہ زندگی“ کے پیمانے سے ناپنے لگتے ہیں۔ قوموں کی زندگی ”صدیوں“ سے ناپی جاتی ہے۔ کاش کوئی یہ چارٹ بھی یہاں پیش کرسکے کہ گزشتہ تیس چالیس صدیوں میں یہودیوں نے کتنی صدی تک علمی و سیاسی میدانوں میں کامیاب و کامران رہے ہیں :)
 

شمشاد

لائبریرین
یوسف بھائی کیا چھکا مارا ہے۔ جزاک اللہ۔

اصل میں بات یہ ہے کہ کچھ لوگوں کا گلاس آدھا خالی ہی رہتا ہے۔ ان کو کبھی بھی آدھا گلاس بھرا ہوا نظر نہیں آتا۔
 

یوسف-2

محفلین
یوسف بھائی کیا چھکا مارا ہے۔ جزاک اللہ۔

اصل میں بات یہ ہے کہ کچھ لوگوں کا گلاس آدھا خالی ہی رہتا ہے۔ ان کو کبھی بھی آدھا گلاس بھرا ہوا نظر نہیں آتا۔
شمشاد بھائی! مسئلہ تو یہی ہے کہ مسلمانوں میں منفی سوچ پھیلانے میں سب سے بڑا ہاتھ ( دانستہ یا نادانستہ :D ) خود مسلمانوں کا ہے۔ ہم مسلمانوں میں ”علم کے فروغ“ میں تو حصہ لیتے نہیں، جو مسلمانوں کی اس دنیوی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ جبکہ دوسری طرف ہم ”غلط اعداد و شمار“ کے ذریعہ یہ بھی ثابت کرنے لگتے ہیں کہ مسلمان ایک پسماندہ، جاہل اور غیر ترقی یافتہ قوم ہے اور وہ بھی یہودیوں جیسی مکار اور جھوٹی قوم کے مقابلہ میں۔ :eek:
  1. امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دنیا کی پچ پر ابھی تک صرف 14 صدیوں کی اننگز کھیلی ہے۔۔ ذرا کوئی ماہر شماریات یہ تو حساب کرکے بتلائے کہ مسلمانوں کی اب تک کی کھیلی گئی اس 14 صدیوں کی اننگز میں کتنی اننگز کامیاب اور کتنی اننگز ناکام رہی ہیں اور کامیابی کا تناسب کتنے فیصد ہے؟؟؟
  2. جبکہ یہودی قوم اس سے کہیں زیادہ صدیوں سے دنیا کی پچ پر میچ کھیل رہی ہے۔ ذرا یہودیوں کا بھی حساب کتاب لگا کر بتلایا جائے کہ وہ اب تک کتنی صدیوں کی اننگز کھیل چکے ہیں اور وہ کتنی صدی اننگز میں کامیاب اور کتنے میں ناکام رہے ہیں اور ان کی کامیابی کا فیصد تناسب کیا ہےِ؟
  3. ”مشترکہ 14 صدیوں کی اننگز“ کا بھی حساب کتاب لگا کر دنیا کو بتلایا جائے کہ ان 14 صدیوں کی اننگز میں مسلمانوں کی کامیابی کا تناسب کیا ہے اور یہودیوں کی کامیابی کا تناسب کیا ہے؟
 

یوسف-2

محفلین
اسلامی تاریخ میں سائنسی کامیابیوں پر ایک نظر
قمرالزمان مصطفوی
اسلامی ریاست کے مسلم اور غیر مسلم لوگوں کے سائنس کے میدان میں کارناموں کو نمایاں کرنے کا مقصد سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ان کی روشن خدمات کو سراہنا ہے۔ اگرچہ ابتداء میں مسلمانوں کا زیادہ تر سائنسی علم بھارتیوں، ایرانیوں، چینیوں اور یونانیوں کی طرف سے آیا تو انہوں نے تیزی سے نہ صرف اس علم کو وسعت دی بلکہ نئے شعبہ جات بھی بنا ئے۔اسلام سے پہلے عرب تاریخ اور جغرافیہ کا ابتدائی علم رکھتے تھے لیکن ان کی تاریخ مقامی قبیلوں اور چند علاقوں کے تذکروں تک محدود تھی۔ اسلام کے ابتدائی دنوں میں تمام خطوں کے مسلمان، خاص طور پر عربوں نے جہاد، حج اور تجارت کے سلسلے میں دور دراز صحراؤں، پہاڑوں، دریاؤں، سمندروں، جنگلوں اور میدانوں میں سفر کیا۔ انہوں نے اس دوران معاشرت، سیاست، تاریخ، جغرافیہ، معاشیات اور زراعت کے متعلق بہت سی معلومات اکٹھی کیں۔ تعلیم اور ریسرچ کے لئے اسلامی ریاست کے تعاون سے مختلیف سائنسز جیسا کہ تاریخ اور جغرافیہ کو فروغ ملا۔ ان دنوں میں سفر بہت مشکل ہوتا تھا، کیونکہ سفر کے لئے جدید سہولیات تو میسر تھیں نہیں اور نہ ہی جگہ جگہ باقاعدہ سڑکیں بنی ہوئی تھیں، لیکن پھر بھی ہر طرح کی مشکلات کے باوجود اسلامی ریاست کے شہریوں نے دور دراز سفر کیا۔
دشت تو دشت ہیں، دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بہر ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے
جہاں تک طبعی اور تجرباتی سائنسز کا تعلق ہے، عرب کے نو مسلم اس کا علم بھی رکھتے تھے۔ انہوں نے گہرے مطالعے کے ذریعے جانوروں اور صحراوؤں میں پائے جانے والے پودوں کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ کچھ پودوں کا استعمال ان کے ہاں دوا کے طور پر بھی ہوتا تھا۔ ابتدائی اسلامی عربی لٹریچر میں پائے جانے والے انسانوں اور جانوروں کے بہت سارے اندرونی اور بیرونی جسمانی حصوں کے ناموں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے پاس جسمانی اعضاء کے متعلق بھی وافر علم موجود تھا۔ وہ ساکن ستاروں، محرک سیاروں اور موسمیاتی تغیر کے متعلق بھی جانتے تھے۔ گھڑ سواری اور شتر بانی سے متعلق فن پارے بھی ان کے ہاں پائے جاتے تھے۔
غیر ملکی لٹریچر کو آسانی سے سمجھنے کے لئے ضروری تھا کہ ان کا تمام تر سائنسی لٹریچر عربی زبان میں ترجمہ کیا جائے۔ وسیع ترین زبان ہونے کی حیثیت سے عربی زبان نے نئی سائنسی اصطلاحات مہیا کیں۔ اسکا مقصد صرف ترجمہ کر دینا نہیں تھا بلکہ اس پر نئے سرے سے ایک مظبوط بنیاد کھڑی کرنا تھا۔ ترجمہ کرنے کے لئے اسلامی دنیا میں کئی مقامات پر ادارے قائم کئے گئے۔ عباسی خلفاء، خاص طور پر المنصور (754-775) اور المامون (813-833) کے دور حکومت میں سائنسی لٹریچر کے ترجمہ اور تیاری میں بہت سارا کام ہوا۔ جس کی ایک روشن مثال بیت الحکمہ (House of Wisdom) ہے جو بغداد میں 832ء میں قائم کیا گیا جو اس مقصد کے لئے ہیڈ کوارٹر کی حیثیت رکھتا تھا۔ دسویں صدی کے آخر میں غیر معمولی حد تک کام کیا گیا۔ تراجموں کا تعلق مختلیف قوموں اور مذہبوں سے تھا۔ جیسا کہ نوبخت کا تعلق ایران سے تھا، محمد ابن ابراہیم الفزاری عرب سے تھا، حنین ابن اسحاق کا تعلق عراق سے تھا جو عیسائی قبیلے کا ایک معزز شخص تھا۔
مسلمان سائنس دانوں نے دوسرے لوگوں کے سائنسی نتائج کو تجرباتی تحقیق کی بنیاد پر پرکھا اور نئے مشاہدات و تجربات بھی کئے جو نئی ایجادات کی بنیاد بنے۔ مسلمان سائنس دانوں نے سائنسی مسائل کو حل کرنے کے لئے باریک فہمی اور عملی سوچ کو اپنایا۔ مسلمان سائنس دانوں نے سائنس کے مختلیف پہلوؤں کے متعلق جانا۔ انہوں نے کئی سائنسی معاملات کا (Qualitative Analysis) بھی کیا اور (Quantitative Analysis) بھی کیا۔ مثال کے طور پر ابن خردادبہ نے اسلامی دنیا میں بہت سی جگہوں کے طول و عرض معلوم کئے، البیرونی نے کئی اجسام کی گریویٹی معلوم کی۔لیبارٹریوں میں کیمیاء، طبیعات اور دوا سازی پر تجربات کئے گئے اور اس طرح ہسپتالوں میں علم الامراض (Pathology) اور عمل جراحی (Surgery) پر تجربات کئے گئے۔ گیارھویں اور بارھویں صدی کے دوران مسلمانوں میں شرح خواندگی عروج پر پہنچ گئی۔ اس دور کے لوگوں کا سائنس کے میدان میں جوش و جذبے کا اندازہ شہاب الدین القرافی کے علم البصرپر کام (Optical Work) سے لگایا جا سکتا ہے، جو فقہ کے عالم اور قاہرہ کے جج تھے، نے 50 بصری مسائل(Optical Problems) پر کام کیا۔
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاں گیر و جہاں دارا و جہانبان و جہاں آرا
اسلامی ریاست میں سائنسدانوں نے نہ صرف سائنس میں حقیقی نمایاں کردار ادا کیا، بلکہ ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی سائنسی ایجادات کا اطلاق بھی کیا۔ انہوں نے ستاروں کا مشاہدہ کیا اور سمت کے تعین کی غرض سے ستاروں کے نقشے بھی تیار کئے۔ ابن یونس نے وقت کی پیمائش کے لئے پنڈولم کا استعمال کیا۔ ابن سینا نے ہوا کا درجہ حرارت معلوم کرنے کے لئے حرارت پیما (Thermometers) استعمال کئے۔ کاغذ، قطب نما، بندوق، گولی میں استعمال ہونے والا بارود، غیر نامیاتی تیزاب، قلوی اساس مسلمان سائنس دانوں کی سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں خدمات کی اہم مثالیں ہیں، جس نے انسانی تہذیب میں مثالی کردار ادا کیا۔
مسلمان سائنس دانوں نے الجبرا تخلیق کیا جو کہ ریاضی کی ایک مستقل شاخ ہے۔ لفظ ’’الجبرا‘‘ عربی لفظ ’’جبر‘‘ سے ماخوذ ہے۔ مسلمان سائنسدانوں نے مثلث پیمائی کا علم متعارف کروایا اور علم فلکیات میں اس کا استعمال کیا۔ انہوں نے ستارہ شناسی (Astrology) اور علم فلکیات (Astronomy) میں فرق کوبھی واضح کیا، کیونکہ ستاروں کا انسان کی تقدیر پر اثر انداز ہونے کا نظریہ رکھنا اسلام میں بدعت ہے۔ لہذٰا اس علم کو غلط عقائد سے پاک کر کے علم فلکیات کی شکل میں اس کے فروغ کے لئے کام کیا گیا۔
حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں، نبی اکرمﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے پروردگار نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟ اس نے ارشاد فرمایا ہے: ’’ میں جب اپنے بندوں کو کوئی نعمت عطا کرتا ہوں، تو بعض لوگ یہ کہتے ہوئے (میری نعمت کا) انکار کر دیتے ہیں کہ یہ نعمت فلاں ستارے کی وجہ سے مجھے ملی ہے‘‘۔ (مسلم شریف، باب: ستاروں کو بارش کا حقیقی سبب قرار دینے والے کے کفر کا بیان)
یورپی زبانوں میں اس وقت ان گنت عربی الفاظ اور سائنسی اصطلاحات استعمال کی جارہی ہیں جو کہ جدید سائنس کے لئے مسلمانوں کی گئی خدمت کی زندہ یادگارہیں۔ اس کے علاوہ ایشاء اور یورپ کی لائبریریوں میں پڑی ہوئی کتابیں، کئی ممالک کے عجائب گھر، صدیوں پہلے تعمیر کی گئی مساجد اور محلات انسانیت کی تاریخ میں وقوع پذیر ہونیوالے اس مظہر کی آج بھی شہادت دے رہے ہیں۔
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
تاریخ پڑھنے والوں کو دھوکہ دینے کے لئے ترجمہ کے عمل کے دوران مسلمان علماء کی ایک کثیر تعداد کے ناموں کو بھی بدل دیا گیا، کہ یہ غیر مسلم یورپی لوگوں کے نام ہیں۔ جیسا کہ ابوالقاسم الزہراوی کو Albucasis کہا جاتا ہے۔ محمد ابن جابر ابن سینا البتانی کو Albetinius اور ابو علی ابن سینا کو Avicenna کے نام سے جانا جاتا ہے۔ cipher اور chiffre بالترتیب انگریزی اور فارسی کے الفاظ ہیں جو کہ عربی لفظ صفر (معنی:خالی) سے ماخوذ ہیں، ایک ایسے عدد کو بیان کرتے ہیں جو اگر کسی عدد کے دائیں جانب لگا دیا جائے تو اس عدد کی قیمت دس گنا ہو جاتی ہے۔ لفظ Alkali کیمسٹری میں استعمال کی جانے والی اصطلاح ہے جس سے مراد ایسی شے ہے جو تیزاب کے ساتھ تعامل کرنے پر نمک دیتی ہے، یہ اصطلاح بھی عربی لفظ ’’القلی‘‘ سے لی گئی ہے۔
اگر کوئی شخص غیر جانبدار ہو کر پوری ایمانداری سے تاریخ کا مطالعہ کرے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جدید سائنسی انقلاب مسلمان سائنسدانوں کے جذبہ تحقیق کی مرہون منت ہے۔ اگرچہ ہم میں سے اکثرلوگ جدید تہذیب پر کئے گئے اپنے اس احسان سے بے خبر ہیں مگر اس کے دئیے گئے تحائف ہماری وراثت کا حصہ ہیں۔ان مسلمان ریاضی دانوں کے بغیر تو جدید ترقی کا تصور بھی نہیں ہو سکتا تھا جنہوں نے الجبراء تخلیق کیا اور وہ Algorithms بنائے جو جدید کمپیوٹرز کی بنیاد بنے۔
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
ربط
 

arifkarim

معطل
دوسری بات یہ کہ من حیث الامت، مسلمانوں کا ٹارگٹ کبھی بھی دنیوی کامیابی کا حصول نہیں رہا۔ مسلمانوں کا اصل ٹارگٹ اُخروی کامیابی ہی رہا ہے اور رہنا بھی چاہئے، خواہ یہ دو دن کی دنیا اُن کے لئے ”ناکامیوں کا مسکن“ ہی کیوں نہ بن جائے۔ دنیا میں جتنے انبیاء علیہ السلام آئے، ان میں سے کتنوں نے ”دنیوی کامیابی“ حاصل کی؟ بہت کم نے۔
کیا اُخروی کامیابی دنیوی کامیابی کے بغیر ممکن ہے؟ تاریخ گواہ ہے کہ آنحضور صللہعلیہسلم اور آپﷺ کے صحابہ کرام علیہلسلم نے دنیوی کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ بغیر دنیوی کامیابیوں کے آپ اُخروی کامیابی کیسے حاصل کر سکتے ہیں، یہ ایک معمہ ہے؟
 

یوسف-2

محفلین
مسلم ایجادات جنہوں نے جدید دور کو تقویت بخشی
(تحریر: صمد اسلم خان)​
آج کے اس جدید دور میں امریکہ ، برطانیہ ، اٹلی اور اسی طرح دوسرے جدید ترقی یافتہ ممالک کو دنیا میں ایک اعٰلی مقام حاصل ہے۔ لیکن ایسی بہت ساری ایجادات ہیں جن کا براہ راست تعلق مسلمانوں سے ہے۔ ہزاروں ایسی بہت ساری ایجادات ہیں جو کہ آج کے اس جدید دور میں بھی اپنی نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔ مغرب کی تمام تر ایجادات ان مسلمانوں کی ایجادات کی مرہون منت ہیں ان میں سے چند ایک کا زکر کچھ یوں ہے۔
جراحی
تقرییًا ۱۰۰۰ عیسوی میں مشہور و معروف مسلمان سائنس دان ابوالازہروی نے ۱۵۰۰ صفحات پر مشتمل ایک جراحی کے متعلق پوری جامع کتاب شائع کی جس میں جراحی کے متعلق ساری معلومات فراہم کی گئی ۔الازہروی کی اس کے علاوہ ایجادات میں بلی کی آنتوں کا آپریشن اور پہلا آپریشن بھی الازہروی کی ایجاد ہے ۔
اڑنے والا طیارہ
عباس ابن فرناس پہلے سائنس دان تھے جنہوں نے سب سے پہلا طیارہ تیار کیا اور اس کی کامیاب پرواز کی ۔ بعد میں ان کے ڈیزائین کی کاپی کی گئی جو کہ اٹلی کے آرٹسٹ نے کی ۔
یونیورسٹی کا قیام
سن ۸۵۹ میں دمشق میں پہلی ڈگری پروگرام کا آغازہوا۔ اور اس یونیورسٹی نے ۱۲۰۰ سال تک کام کیا اور اس کو اسلام کی تعلیمات کے فروغ کے لیے استعمال کیا گیا ۔
الجبرہ
الجبرہ فارسی زبان سے اخذ کیا گیا ہے اور نویں صدی میں مسلمان سائنس دان نے کتاب لکھی جس کا نام ‘‘کتاب الجبر ’’ رکھا ۔ اور اس کے علاوہ ہندسوں کے متعلق ، تعداد کی پاور دو وغیرہ مسلمان سائنس دانوں کی ایجادات ہیں ۔
علم بصریات
بہت ساری اہم بصریات کے متعلق ریسرچ مسلم دنیا سے ہوئی ۔ ابو علی الحسن اور الحیشم نے ۱۰۰۰ عیسوی میں ثابت کیا کہ انسان روشنی کے عکس کے زریعے دیکھتا ہے اور اس کے علاوہ بہت ساری معلومات فراہم کیں جو کہ انسانی آنکھ سے متعلق تھیں ۔
ٹوتھ برش (مسواک)
۶۰۰ سن ہجری میں ہر دلعزیز ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ نے مسواک کا استعمال کیا ۔ انہوں نے مسواک کو استعمال کرنے پر بہت زور دیا اور اس کے فوائد بھی بتائے ۔ اسی طرح آج کے اس جدید دور میں مسواک کی طرز پر ٹوتھ برش استعمال ہو رہا ہے۔
ہسپتال کا قیام
ہسپتال جو آج ہم دیکھتے ہیں کہ جس میں مختلف وارڈز ، نرسنگ سٹاف کی ٹرینننگ وغیرہ یہ سب سے پہلے مصر میں سن ۹۰۰ میں شروع ہوا۔
غرض مسلمانوں نے اپنے دور خلافت میں اس کے علاوہ ہزاروں ایسی چیزوں کو ایجاد کیا جو کہ آج تک ان چیزوں پر ریشرچ کر کے استعمال کی جارہی ہیں اور ان کو نئے نام دے کر مغرب اپنا سکہ چلا رہا ہے حقیقت میں ان سب ایجادات کے بانی مسلم دنیا کے معروف اور مقبول سائنس دان ہیں
ربط
 

یوسف-2

محفلین
کیا اُخروی کامیابی دنیوی کامیابی کے بغیر ممکن ہے؟ تاریخ گواہ ہے کہ آنحضور صللہعلیہسلم اور آپﷺ کے صحابہ کرام علیہلسلم نے دنیوی کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ بغیر دنیوی کامیابیوں کے آپ اُخروی کامیابی کیسے حاصل کر سکتے ہیں، یہ ایک معمہ ہے؟
جی ہاں! بالکل ممکن ہے۔ اگرچہ کہ اسلام ۔ ۔ ۔ فی الدنیا حسن و فی لآخر حسن ۔۔۔ کی تلقین کرتا ہے، لیکن اس کے باوجود اُخروی کامیابی، دنیوی کامیابی کے بغیر بھی ممکن ہے۔
ذرا قرآن و احادیث میں تذکرہ کئے گئے انبیا علیہ السلام کا احوال پڑھ کر یہ چارٹ تو بنائیے کہ ان میں سے کتنے انبیا علیہ السلام نے دنیا میں کامیابی حاصل کی تھی؟ کیا جو انبیا علیہ السلام دنیا میں کامیاب و کامران نہین ہوئے، وہ آخرت مین کامیاب نہ ہوں گے؟؟؟ (معاذ اللہ)
 

یوسف-2

محفلین
نیویارک میں 1001 مُسلم ایجادات کی نمائش
از مریم ستّار*
، نیویارک: آٹھ سالہ مریسا کیمپِس نیویارک کے نیویارک ہال آف سائنس اینڈ کوئینز میں منعقدہ ایک نئی نمائش "1001 ایجادات: اپنی دنیا میں مُسلم ورثے کو دریافت کریں!" میں ایک کھیل میں مصروف ہے۔ چھُونے سے چلنے والی سکرین پر ایک گھر کے بڑے کمرے کا منظر ہے اور نمائش دیکھنے والوں سے کوئی ایسی شئے منتخب کرنے کو کہا جاتا ہے جو 7ویں سے 17ویں صدی عیسوی کے درمیان ایک ہزار سال پر محیط اسلام کے 'سنہرے دور' میں ایجاد ہوئی ہو۔

مریسا نے اپنی پسندیدہ ایجاد 'اندھیرے کیمرے' کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا" انہوں نے جو کچھ بنایا وہ بہت دلچسپ ہے۔ مثلاً پرانی طرز کا یہ ”کیمرہ"۔ جدید فوٹو گرافی کی راہ اِسی کیمرے نے ہموار کی تھی۔ یہ بات اگرچہ مریسا کو معلوم نہیں ہے لیکن وہ ایشیا، افریقہ اور یورپ کے جنوبی حصے کی اسلامی ثقافت سے رُوشناس ہو رہی تھی۔

نیویارک ہال آف سائنس لندن اور استنبول میں ریکارڈ توڑ تعداد آٹھ لاکھ شائقین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے بعد امریکہ میں اس نمائش کا یہ پہلا پڑاؤ تھا۔

نمائش میں رکھی گئی اشیاٴ شائقین کو نہ صرف یہ بتاتی ہیں کہ سائنسی ایجادات کس طرح کام کرتی ہیں بلکہ مسلمانوں کے بارے میں ان دقیانوسی تصوّرات کو بھی چیلنج کرتی ہیں جو اپنی قابلِ نفرت کارروائیوں کا تعلق اسلام کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ اس امر کا اظہار پِیو ریسرچ سینٹر کی رپورٹ برائے سال 2009 میں بھی کیا گیا ہے جس میں لکھا ہے کہ 38 فیصد امریکیوں کا یہ کہنا ہے کہ دیگر عقائد کی نسبت اسلام تشدد کی زیادہ حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

یہ نمائش اس دقیانوسی تصوّر کو توڑتی ہے کہ مُسلمان اور تشدد لازم وملزوم ہیں۔ شائقین کو مسلمانوں کے بھرپور ثقافتی ورثے سے رُوشناس کرا کے اس حکایت کو بھی ختم کرتی ہے جو مشرق کے بارے میں اُس مغربی اندازِ فکر 'استشراق' کی پیداوار ہے جس پر اکثر تنقید کی جاتی ہے کہ اس میں مشرقی تہذیبوں کو کم جدّت آمیز اور عمومی طور پر مغربی ثقافت کی حریف کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ مغرب میں یہ تصوّر کئی صدیوں سے قائم ہے۔ نمائش میں آنے والے تمام عقائد کے لوگوں کے لئے اسلام کے سنہری دَور کی سائنسی کامیابیوں کے بارے میں جاننا بہت حیرت انگیز تھا۔ بہت سے مُسلم امریکیوں کے لئے بھی یہ ان ایجادات کے بارے میں جاننے کا پہلا موقع تھا کیونکہ یہ تاریخ کا وہ دَور ہے جو مغرب کے بیشتر اسکولوں میں پڑھایا نہیں جاتا۔

نمائش میں تاریخ کے جِس دور کا احاطہ کیا گیا تھا وہ مُسلم تہذیب کا سہنری دور تھا لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یورپ کا تاریک دور بھی تھا۔ اس فرق کو نمائش کا تعارف کرانے والی مختصر دورانیے کی ایک ویڈیو فِلم "1001 ایجادات اور رازوں کی لائبریری" میں اُجاگر کیا گیا ہے جس میں اکیڈمی ایوارڈ یافتہ اداکار بین کِنگزلے نے اداکاری کی ہے۔ فلم میں کنگزلے نے 12 ویں صدی عیسوی کے ترک مُوجد الجزری کا کردار ادا کیا ہے جو 21 ویں صدی کے نوعمر لڑکے لڑکیوں کے ایک گروپ کو اسلام کے سنہری دور کے سائنسدانوں اور انجینِئروں سے ملنے کے سفر پر لے جاتا ہے۔ اس فلم نے 2010 کے کینز فلم میلے میں بہترین تعلیمی فِلم کا ایوارڈ جیتا تھا۔

جامنی اور سنہرے رنگوں سے مزّین نمائش ہال سے گزرتے ہوئے الجزری کی تخلیق کردہ پانی سے چلنے والی گھڑی کا 20 فُٹ بلند نمونہ شائقین کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ گھڑی کی دوسری طرف اُڑنے والی مشین کا ایک ماڈل ٹنگا ہوا ہے جو 9 ویں صدی کے مُوجد عباس ابنِ فرناس نے تخلیق کیا تھا جِسے بعض لوگ وہ پہلا شخص قرار دیتے ہیں جس نے سائنسی طریقے سے فضا میں اُڑنے کی کوشش کی تھی۔ ایک اور قابلِ دید چیز 15 ویں صدی کے چینی نژاد مُسلمان ایڈمرل ژینگ ہی کے ایک بحری جہاز کی تصویر ہے۔ ژینگ ہی کے بحری جہاز تقریباً فُٹ بال گراؤنڈ جتنے بڑے ہوتے تھے۔

نمائش میں غیر مُسلم سائنس دانوں اور مُوجدوں مثلاً 12 صدی کے یہودی معالج مُوسیٰ بن میمون کا کام بھی دکھایا گیا ہے جس کا تعلق قرطبہ، سپین، سے تھا اور اُس نے مسلم فسلفیوں کے ساتھ کام کیا تھا۔ مُوسیٰ بن میمون کو نمائش میں جگہ دینا سائنسدانوں کے درمیان کامیاب بین الثقافتی اشتراکِ کار کی نشاندہی کرتا ہے جس کے نتیجے میں تاریخ کی بعض عظیم ترین سائنسی کامیابیاں حاصل ہوئی تھیں۔ اشتراکِ کار کی اس تاریخ کی جھلک اس حقیقت میں بھی نظر آتی ہے کہ اسلام کے سنہرے دور میں مُوجدوں نے قدیم روم اور یونان میں اپنے پیشروؤں کے علم سے فائدہ اٹھایا تھا اور بعد میں یورپ کے دورِ احیا میں ان مسلمان سائنسدانوں کے علم کو یورپی موجدوں نے استعمال کیا تھا۔

اس طرح کے روابط سائنسی کامیابیوں کی اس بھرپور میراث کی نشاندہی کرتے ہیں جو ساری انسانیت کی مشُترکہ ملکیت ہے۔

"1001 ایجادات" مالی منفعت کے لالچ کے بغیر چلنے والی غیر مذہبی علمی تنظیم 'فاؤنڈیشن برائے سائنس، ٹیکنالوجی اور تہذیب' کی سرگرمی ہے اور یہ نمائش نیویارک میں اپریل تک جاری رہے گی۔ اس کا اگلا پڑاؤ لاس اینجلس میں کیلی فورنیا سائنس سینٹر ہے جہاں سے 2012 میں یہ واشنگٹن ڈی سی کے نیشنل جیوگرافک میوزیم میں جائے گی۔ نمائش دیکھنے کے لئے آنے والوں کو یہ احساس ہوگا کہ ہم مشرق ومغرب کے درمیان موجود آج کے اختلافات کو پسِ پُشت ڈال سکتے ہیں کیونکہ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جو عظیم ترین ایجادات آج بھی ہمارے استعمال میں ہیں وہ دنیا بھر کے سائنسدانوں کی مشترکہ محنت سے وجود میں آئی تھیں۔
================
* مریم ستّار لندن میں پلی بڑھی ہیں اور آج کل کولمبیا یونیورسٹی کے سکول آف جرنلزم میں ایم اے کر رہی ہیں۔ یہ مضمون کامن گراؤنڈ نیوز سروس (سی جی نیوز) کے لئے لکھا گیا ہے۔
ماخذ: کامن گراؤنڈ نیوز سروس (سی جی نیوز)، 7 جنوری 2011
www.commongroundnews.org

ربط
 
Top