آج ہم بچھڑے تو پھر کتنے رنگیلے ہو گئے ۔ شاہد کبیر

فاتح

لائبریرین
کافی برس قبل ایک دوست سے ایک رنگ برنگا مگر خوبصورت شعر سننے کا اتفاق ہوا اور اس کی انوکھی ترکیب پر ہنسی بھی آئی۔ نیٹ پر تلاش کرنے کی کوشش کی مگر نہ مل سکا لیکن آج اتفاق سے دو مختلف جگہوں (جن میں سے ایک اعجاز صاحب کی برقی کتب کی سائٹ ہے) سے اس غزل کے دو اور تین اشعار ملے اور یوں پانچ اشعار پر مشتمل یہ 'غزل' پڑھنے کو ملی جو آپ دوستوں کی خٍدمت میں بھی پیش ہے۔
ممکن ہے اس غزل میں مزید اشعار بھی ہوں لہٰذا آپ سب سے استدعا ہے کہ اگر باقی اشعار آپ میں سے کسی کے علم میں ہوں تو وہ بھی یہاں ارسال فرما دیجیے۔ شکریہ!

آج ہم بچھڑے تو پھر کتنے رنگیلے ہو گئے
میری آنکھیں سرخ تیرے ہاتھ پیلے ہو گئے

اب تری یادوں کے نشتر بھی ہوئے جاتے ہیں کند
ہم کو کتنے روز اپنے زخم چھیلے ہو گئے

کب کی پتھر ہو چکی تھیں منتظر آنکھیں مگر
چھو کے دیکھا جو انھیں تو ہاتھ گیلے ہو گئے

جانے کیا احساس سازِ حسن کی تاروں میں ہے
جن کو چھوتے ہی مرے نغمے رسیلے ہو گئے

اب کوئی امید ہے شاہدؔ نہ کوئی آرزو
آسرے ٹوٹے تو جینے کے وسیلے ہو گئے
(شاہدؔ کبیر)
 

فرخ منظور

لائبریرین
اب کوئی امید ہے شاہدؔ نہ کوئی آرزو
آسرے ٹوٹے تو جینے کے وسیلے ہو گئے
واہ بہت خوب فاتح صاحب۔ عمدہ غزل ہے۔ بہت شکریہ!
 

الف عین

لائبریرین
شاہد اچھے شاعر تھے، میرے راست دوست تو نہیں تھے، لیکن میرے دوستوں عبد الرحیم نشتر اور مدحت الاختر کے دوستوں میں تھے۔ افسوس کہ موت نے ان کو جوانی میں ہی بلا لیا۔ ان کا بیٹا سمیر کبیر بھی اچھا لکھنے لگا ہے، ناگپور میں مجھ سے ملاقات رہی تھی اس سے۔
 
Top