آج پھر اُن کو گلستان میں خراماں دیکھا، عابد لاہوری

کاشفی

محفلین
غزل
(عابد لاہوری)

آج پھر اُن کو گلستاں میں خراماں دیکھا
رنگ کو رقص میں، نکہت کو پرافشاں دیکھا

گوشہء باغ میں اک ماہِ منّور چمکا
اُفقِ ناز سے اک مہرِ درخشاں دیکھا

پھر ہوئے روح میں اصنامِ تمنّا بیدار
پھر وہی قاعدہ ء جلوہء جاناں دیکھا

پھر درِ دل پہ جنوں آکے پکارا، ہشیار!
پھر وہی سلسلہء زلفِ پریشاں دیکھا

جس کی تابش سے کبھی بزم ِ وفا روشن تھی
آج اُس شمع کو محفل میں فروزاں دیکھا

جانے کیا دیکھ لیا آج کہ باسوزوگداز
ہم نے عابد کو سرِ راہ غزل خواں دیکھا
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت خوبصورت غزل ہے۔ شکریہ کاشفی صاحب۔ کیا اس شعر میں قاعدہ نہیں ہونا چاہیے؟
پھر ہوئے روح میں اصنامِ تمنّا بیدار
پھر وہی
قائدہء جلوہء جاناں دیکھا

 
Top