آج بے پردہ جو وہ مہر منور نِکلا - لالہ مکندلعل جوہری کاکوری لکھنوی

کاشفی

محفلین
غزل
(شاعر نازک خیال لالہ مکندلعل صاحب المتخلص بہ جوہری ساکن قصبہ کاکوری ضلع لکھنؤ)

آج بے پردہ جو وہ مہر منور نِکلا
پردہء ابر میں چھپکر مہ انور نِکلا

قامت یار قیامت سے بھی بڑھ کر نِکلا
چشمِ بدور غضب فتنہ محشر نکلا

ظلم پر ظلم سہے اُف نہ نِکالا مُنہ سے
دل جسے سمجھے تھے وہ سینہ میں پتھر نِکلا

ہو سکا پھر نہ حساب اور گنہگاروں کا
حشر میں میرے گناہوں کا جو دفتر نِکلا

خانہء چشم ہوا اشک سے سیلاب میں‌غرق
گھر کو برباد کیا طفل یہ ابتر نِکلا

سبزہ آغاز ہوا حُسن بڑھا عارض کا
خط یہ نِکلا ہے کہ آئینہ میں‌جوہر نِکلا

وصف لعل لب شیریں کے بند ہی ہیں مضموں
شعر میں ذائقہء قند مکرر نِکلا

باعث کربت عُربت ہیں یہی دانہ و آب
آب و دانہ کے سبب سیپ سے گوہر نِکلا

تیرے آنے سے ہوئی بزم حسیناں برہم
تارے چھپ جائیں نہ کیوں جب شہ خاور نِکلا

حال دل سن کے شب وصل میں وہ کہنے لگے
نیند کس طرح پڑے گی جو یہ دفتر نِکلا

بت کا بندہ ہوا کی پیر مغاں کی بیعت
جوہری کعبہ سے کیا دل میں سمجھ کر نِکلا​
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت عمدہ غزل ہے کاشفی صاحب۔ بہت شکریہ شئیر کرنے کے لئے۔ ایک شعر کھٹک رہا ہے، دیکھیے گا اس میں کچھ املا کی اغلاط محسوس ہو رہی ہیں۔

باعث کربت عُربت ہیں یہی دانہ و آب
آب و دانہ کے سبب سیپ سے گوہر نِکلا
 
Top