آئیے سماجی بہبود کریں!

جاسمن

لائبریرین
کرونا کے دنوں میں اسے ضروری کام سے پہلی بار نکلنا پڑا۔ ایک سٹور سے دیگر چیزوں کے ساتھ آدھا کلو شاپرز لیے۔اب شاپرز کی ضرورت تو نہیں تھی لیکن راستے میں اس بابا جی سے ایک کلو مزید شاپرز لے لیے جو بیچارے وہیل چئیر پہ شاپرز بیچتے ہیں۔ محمد بتاتا رہتا ہے کہ وہ دو بابوں سے چیزیں لیتا ہے اور ایک بابا کی ویسے ہی مدد کرتا ہے۔ دوسرے بابا کی ریڑھی سے پھل لیے۔ آگے ایک سائیکل والا لڑکا کیرئیر پہ باکس میں بیر رکھے بیچ رہا تھا۔ اسے ٹھہرایا اور بیر لیے۔ اس کے پاس شاپرز نہیں تھے۔ اسے شاپرز تحفہ میں دیے۔
کرونا کے دنوں میں بازار کا پہلا دورہ اس کے لیے بڑا مفید رہا۔
 

جاسمن

لائبریرین
شاہی بازار میں ایک چھوٹے سے پتیلے میں ٹکیاں رکھے بیچ رہا تھا وہ شخص۔ رک کر اس شخص سے سو روپے کی ٹکیاں لیں۔ آگے ایک بھکاری نظر آیا تو اسے دے دیں۔ اسی خریداری کے دن ایک مارکیٹ میں ایک بوڑھے بابا جی ایک ٹرے میں گھر کی بنی کوئی مٹھائی فروخت کر رہے تھے۔ ان سے بھی خریداری کی۔
گھر کے دروازے پہ رکشہ سے اترے تو سائیکل پہ ایک شخص پودینہ بیچ رہا تھا۔ جب کافی سارا پودینہ لے کے گھر کے دروازے کی طرف مڑے تو صاحب کھڑے مسکرا رہے تھے۔ دونوں نے اک دوجے کو دیکھا اور ہنس پڑے۔
 

جاسمن

لائبریرین
آئیے ہم کم از کم ایک جوتا کسی کو دیں چاہے ہمارا استعمال شدہ ہو یا نیا۔ ضروری نہیں کہ مہنگا ہو۔
آج اس نے اپنی بیٹی کے دو اچھے جوتے کسی کو دیے ہیں۔ اسے یہ بھی کہا کہ جیسے ہی نئی چیز خریدو، کوشش کرو کہ پہلے والی کسی کو دے دو۔ اس نے سکول کا ایک جوتا لیا ہے اور سکول کا بہت نئی حالت کا پہلا جوتا دے دیا ہے۔ ساتھ ہی ایک اور کھلا جوتا بھی دیا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
پرانی کاپیاں جن کے بہت سے صفحات خالی تھے، ایک ملازم کے بچوں کے لیے دیے۔ پرانا سکول کا بستہ جو بہت اچھی حالت میں تھا۔
 

جاسمن

لائبریرین
ایک طالبہ جس کی امی کینسر کے مرض کی وجہ سے وفات پا گئیں۔ اس بچی کی کافی مدد پہلے بھی کی ہے۔ حال ہی میں اسے موبائل لے کے دیا ہے آن لائن کلاسز وغیرہ کے لیے۔ اب اس کا داخلہ بی ایس میں کروا رہے ہیں۔ اس کے لیے وظیفہ کی کوشش بھی کی ہے اور ماشاءاللہ ایک پرائیویٹ ادارے کے وظیفہ کے لیے اس کا نام آگیا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
جب سے شعور کی آنکھ کھُلی امّی جان کو لوگوں کے کام آتے دیکھا۔جانوروں سے بھی رحم کا برتاؤ کرتی ہیں۔ اکثر یہ جُملہ کہتی سُنائی دیتی ہیں۔
" پتہ نہیں اللہ کیس گل توں راضی اے۔"
میٹرک کے امتحان ہو رہے تھے۔ لگتا تھا میرے نہیں امّی جان کے اِمتحان ہو رہے ہیں۔رات کو دیر تک پڑھ کے اُن سے کہتی کہ مجھے تین بجے جگا دیجئے گا۔ وہ جاگتی رہتیں کہ اُن کی آنکھ نہ کھُل سکی تو میرا نقصان ہو گا۔ ایک رات باہر کُتا بھونکا تو اُنہوں نے اُسے روٹی دے دی۔ پھر تو وہ روز آنے لگا۔تین بجے رات کو آتا اور دروازہ ایسے کھٹکھٹاتا جیسے کوئی اِنسان کھٹکھٹاتا ہو۔ اُس کے لئے روٹی کا پہلے سے اِنتظام ہوتا تھا۔ امّی جان مسکراتیں اور اُسے روٹی دیتیں۔وہ مزے سے کھاتا جاتا اور دُم ہِلاتا جاتا۔
اتنا اچھا لگا جاسمن بہنا ۔اپنی سادہ سی جنتی امّاں جانی یاد آگئیں آنسووں کی جھڑی لگی رہی اور اماّں کے لئیے مغفرت دعا ساتھ ساتھ جاری جاری رہی۔یہ قرینہ ساری زندگی اپنائےرکھا ۔جب تک اس دارِفانی سے کوچ نہ کر گئیں۔جب سے ہوش سنبھالا یہ دیکھا کراچی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھی جانا پڑتا تو جاتیں جب تک جس کا کام لے لیتں اُسکو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا دیتں۔اور ہر دم یہی وردِ زبان پتہ نہیں کس بات پر اللّہ مجھ سے راضی ہو جائے۔اپنے ہاتھوں سے کھانا بناکر اور لوگوں کھلا کر اس قدر خوش ہوتییں گویا پوری دنیا کی دولت مل گئی،نہ گرمی کی پرواہ۔ نہ سردی کی حیرت تو اس بات پہ ہوتی مشکل سے مشکل کام کسی کا بھی ہوتا اس خوش اسلوبی سے کرتیں کہ دوسرے کو اندازہ ہ نہ ہوتا کہ اِس کی تکمیل میں کتنی مشکلات اُنکو اپنی ذات پر جھیلنا پڑیں ۔ہمیں جب پتہ چلتا جب سب کچھ کر کے حوالے کر رہ ہوتیں۔بہ خدا ماں باپ کو کھونا ایسا دکھ ہے۔جو لفظ بیان نہیں کرسکتے ۔بس اپنے پیارے اللّہ میاں سے ہر دم دعا رہتی ہے جس آرام سے تو نے اُنکو اپنے پاس بلایا۔اُنکا انتقال بارہ رمضان کو ہوا۔مغفرت کا عشرہ تھا فجر کی نماز پڑھ کر لیٹیں اور باوضو اُس کے دربار میں پیش ہوگییں۔تو مالک اپنی اِس چاہنے والی ہستی پر آسانیاں فرمادے ۔اُن سے راضی ہوجانا میرے مالک۔۔؀
ہ جو اک دعائے سکون تھی مرے رخت میں ، وہی کھو گئی
مرے چار سو ہے دُھواں دُھواں
مرے خواب سے مری آنکھ تک

یہ جو سیلِ اشک ہے درمیاں
اُسی سیلِ اشک کے پار ہے

کہیں میری ماں
ترے رحم کی نہیں حد کوئی
ترے عفو کی نہیں انتہا

کہ تو ماں سے بڑھ کے شفیق ہے
وہ رفیق ہے

کہ جو ساتھ ہو تو یہ زندگی کی مسافتیں
یہ اذیتیں یہ رکاوٹیں

فقط اک نگاہ کی مار ہیں
یہ جو خار ہیں

ترے دست معجزہ ساز ہیں
گل خوش جمال بہار ہیں

مری التجا ہے تو بس یہی
مری زندگی کا جو وقت ہے

کٹے اُس کی اُجلی دعاؤں میں

تری بخشِشوں کے دِیار میں
مری ماں کی روحِ جمیل کو

سدا رکھنا اپنے جوار میں

سد ا پُر ِفضا وہ لحد رہے تیری لطفِ خاص کی چھاؤں میں
وہ جو ایک پارہء ابر تھا سرِ آسماں
پس ہر گماں
وہ جو ایک حرفِ یقین تھا
مرے ہر سفر کا امین تھا

وہ جو ایک باغ ارم نما ، سبھی موسموں میں ہرا رہا
وہ اجڑ گیا

وہ جو اک دُعا کا چراغ سا ، مرے راستوں میں جلا رہا
وہ بکھر گیا
میری پیاری اماّں کی نذر امجد اسلام صاحب کی نظم
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
اتنا اچھا لگا جاسمن بہنا ۔اپنی سادہ سی جنتی امّاں جانی یاد آگئیں آنسووں کی جھڑی لگی رہی اور اماّں کے لئیے مغفرت دعا ساتھ ساتھ جاری جاری رہی۔یہ قرینہ ساری زندگی اپنائےرکھا ۔جب تک اس دارِفانی سے کوچ نہ کر گئیں۔جب سے ہوش سنبھالا یہ دیکھا کراچی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھی جانا پڑتا تو جاتیں جب تک جس کا کام لے لیتں اُسکو پایہ تکمیل تک نہ پہنچا دیتں۔اور ہر دم یہی وردِ زبان پتہ نہیں کس بات پر اللّہ مجھ سے راضی ہو جائے۔اپنے ہاتھوں سے کھانا بناکر اور لوگوں کھلا کر اس قدر خوش ہوتییں گویا پوری دنیا کی دولت مل گئی،نہ گرمی کی پرواہ۔ نہ سردی کی حیرت تو اس بات پہ ہوتی مشکل سے مشکل کام کسی کا بھی ہوتا اس خوش اسلوبی سے کرتیں کہ دوسرے کو اندازہ ہ نہ ہوتا کہ اِس کی تکمیل میں کتنی مشکلات اُنکو اپنی ذات پر جھیلنا پڑیں ۔ہمیں جب پتہ چلتا جب سب کچھ کر کے حوالے کر رہ ہوتیں۔بہ خدا ماں باپ کو کھونا ایسا دکھ ہے۔جو لفظ بیان نہیں کرسکتے ۔بس اپنے پیارے اللّہ میاں سے ہر دم دعا رہتی ہے جس آرام سے تو نے اُنکو اپنے پاس بلایا۔اُنکا انتقال بارہ رمضان کو ہوا۔مغفرت کا عشرہ تھا فجر کی نماز پڑھ کر لیٹیں اور باوضو اُس کے دربار میں پیش ہوگییں۔تو مالک اپنی اِس چاہنے والی ہستی پر آسانیاں فرمادے ۔اُن سے راضی ہوجانا میرے مالک۔۔؀
ہ جو اک دعائے سکون تھی مرے رخت میں ، وہی کھو گئی
مرے چار سو ہے دُھواں دُھواں
مرے خواب سے مری آنکھ تک

یہ جو سیلِ اشک ہے درمیاں
اُسی سیلِ اشک کے پار ہے

کہیں میری ماں


ترے رحم کی نہیں حد کوئی
ترے عفو کی نہیں انتہا

کہ تو ماں سے بڑھ کے شفیق ہے
وہ رفیق ہے

کہ جو ساتھ ہو تو یہ زندگی کی مسافتیں
یہ اذیتیں یہ رکاوٹیں

فقط اک نگاہ کی مار ہیں
یہ جو خار ہیں

ترے دست معجزہ ساز ہیں
گل خوش جمال بہار ہیں

مری التجا ہے تو بس یہی
مری زندگی کا جو وقت ہے

کٹے اُس کی اُجلی دعاؤں میں

تری بخشِشوں کے دِیار میں
مری ماں کی روحِ جمیل کو

سدا رکھنا اپنے جوار میں

سد ا پُر ِفضا وہ لحد رہے تیری لطفِ خاص کی چھاؤں میں
وہ جو ایک پارہء ابر تھا سرِ آسماں

پس ہر گماں

وہ جو ایک حرفِ یقین تھا
مرے ہر سفر کا امین تھا

وہ جو ایک باغ ارم نما ، سبھی موسموں میں ہرا رہا
وہ اجڑ گیا

وہ جو اک دُعا کا چراغ سا ، مرے راستوں میں جلا رہا
وہ بکھر گیا
میری پیاری اماّں کی نذر امجد اسلام صاحب کی نظم

اللہ آپ کی امی جی، میری اماں، ابو اور سب مسلمان بہن بھائی جو چلے گئے، سب کی مغفرت فرمائے۔ سب کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ سب کی قبروں کو ٹھنڈا، ہوادار، کشادہ اور روشن کرے۔ ان میں جنت کی کھڑکیاں کھول دے۔ لواحقین کو صبر جمیل دے۔ انھیں مرحومین کے لیے صدقئہ بنائے۔ اور ان کے لیے آسانیاں اور رزق حلال میں برکتیں عطا فرمائے۔ آمین!
ثم آمین!
سیما جی! دکھی نہ ہوں۔ اس بات پہ خوش ہوں کہ وہ اپنے پیارے پیارے اللہ سے جا ملیں۔ اپنے اصلی مالک سے۔ اور کتنی خوبصورت ساعت و حالت میں گئیں۔ سکون محسوس کریں اس بات پہ۔ یہ اللہ کی طرف سے ان کے لیے بہت ہی بڑا اعزاز ہے اور آپ کے لیے حد درجہ اطمینان کی بات ہے۔
اللہ آپ کو سکون قلب اور آسانیاں عطا فرمائے۔ آمین!
(میں تو آپ کے دکھی ہونے پہ خود بھی دکھی ہو رہی ہوں اور آنسوؤں پہ قابو پانا مشکل ہو رہا ہے۔)
 

جاسمن

لائبریرین
ایک چھوٹے بچہ کو گود میں لیے اور دو نسبتاً بڑے بچوں کو لیے تین سیٹوں پہ بیٹھی تھیں جبکہ ان کی دو سیٹیں تھیں۔ ساتھ نیچے بیگ بھی تھا۔ میں بیٹھی تو ایک بڑے بچہ کو گود میں بٹھا لیا۔
دل کو بہت اطمینان ملا۔
پتہ نہیں اللہ سوہنا کیس گل توں راضی ہووے!
 

سیما علی

لائبریرین
اللہ آپ کی امی جی، میری اماں، ابو اور سب مسلمان بہن بھائی جو چلے گئے، سب کی مغفرت فرمائے۔ سب کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ سب کی قبروں کو ٹھنڈا، ہوادار، کشادہ اور روشن کرے۔ ان میں جنت کی کھڑکیاں کھول دے۔ لواحقین کو صبر جمیل دے۔ انھیں مرحومین کے لیے صدقئہ بنائے۔ اور ان کے لیے آسانیاں اور رزق حلال میں برکتیں عطا فرمائے۔ آمین!
ثم آمین!
سیما جی! دکھی نہ ہوں۔ اس بات پہ خوش ہوں کہ وہ اپنے پیارے پیارے اللہ سے جا ملیں۔ اپنے اصلی مالک سے۔ اور کتنی خوبصورت ساعت و حالت میں گئیں۔ سکون محسوس کریں اس بات پہ۔ یہ اللہ کی طرف سے ان کے لیے بہت ہی بڑا اعزاز ہے اور آپ کے لیے حد درجہ اطمینان کی بات ہے۔
اللہ آپ کو سکون قلب اور آسانیاں عطا فرمائے۔ آمین!
(میں تو آپ کے دکھی ہونے پہ خود بھی دکھی ہو رہی ہوں اور آنسوؤں پہ قابو پانا مشکل ہو رہا ہے۔)
بہت ساری دعائیں،سلامت رہیے شاد و آباد رہیے۔اللّہ اپنی حفیظ و امان میں رکھے بچوں کی بہت ساری خوشیاں دکھائے آمین ۔اور پیار ،آپکی محبت کا بہت شکریہ بس جب آپکی باتیں پڑھ رہی تو میری نظروں کھ سامنے امّاں کا چہرہ آگیا ۔اور تمام اُن دعاؤں پر آمین الہی آمین پروردگار ہمارے تمام چاہنے والے تمام مسلمان بہن بھائی جو ہم میں نہیں اُنکو اپنے جوارِرحمت میں جگہ عطا فرمائے۔آپکی محبت سے لبریز تحریر دل کو چھو لیتی ہے امجد صاحب کی یہ نظم کا ایک ایک لفظ لگتا ہے ہمارے دل کی آواز ہے ۔بہت سارا پیار آپکے لیئے۔:in-love::in-love::in-love::in-love::in-love:
 

سیما علی

لائبریرین
اس بار اللہ نے کئی کام لیے۔ ہم نے تقریبا 13 گھروں میں راشن، چھ گھروں میں آٹا، ایک ادارہ کے لوگوں میں کپڑے، ہائی جین کٹ، کتابیں، سٹیشنری،مستحق لوگوں میں 32 سوٹ، پانچ جوتے اور پانچ لوگوں کے علاج کی رقم۔۔۔۔دی۔
پچھلے سالوں کی نسبت اس بار اللہ نے ہم سے زیادہ کام لیا۔
الحمداللہ رب العالمین۔
بے شک سب تعریفیں اسی کے لیے ہیں۔
اللّہ پاک آپ کو اجرِ عظیم عطا فرمائے۔یہ کوشش ہم دل وجان سے کرتے رہتے ہیں لاک ڈاؤن کے دِنوں میں اسکے علاوہ جب موقع ملے کچھ کوئی پانچ بچوں کی اِسکول فیس اور جو کچھ ممکن ہوتا ہے انسان کو کرتے رہنا ۔دعاہے کہ وہ اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے آمین۔
 

سیما علی

لائبریرین
شاہی بازار میں ایک چھوٹے سے پتیلے میں ٹکیاں رکھے بیچ رہا تھا وہ شخص۔ رک کر اس شخص سے سو روپے کی ٹکیاں لیں۔ آگے ایک بھکاری نظر آیا تو اسے دے دیں۔ اسی خریداری کے دن ایک مارکیٹ میں ایک بوڑھے بابا جی ایک ٹرے میں گھر کی بنی کوئی مٹھائی فروخت کر رہے تھے۔ ان سے بھی خریداری کی۔
گھر کے دروازے پہ رکشہ سے اترے تو سائیکل پہ ایک شخص پودینہ بیچ رہا تھا۔ جب کافی سارا پودینہ لے کے گھر کے دروازے کی طرف مڑے تو صاحب کھڑے مسکرا رہے تھے۔ دونوں نے اک دوجے کو دیکھا اور ہنس پڑے۔
ماشاء اللّہ ماشاءاللّہ ،اللّہ ہمیشہ ہنستا مسکراتا رکھے آمین الہی آمین:in-love::in-love:
 

جاسمن

لائبریرین
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
ہم نے کچھ عرصہ پہلے اپنے سماجی بہبود کے کاموں کا دائرہ تھوڑا سا بڑھایا اور وٹزایپ پہ گروپ بنا کر رشتے ڈھونڈنے میں لوگوں کی مدد شروع کی۔

بظاہر رشتے کروانے کا کام ہمارے معاشرے میں کچھ عجیب سمجھا جاتا ہے۔ سب لوگ چاہتے ضرور ہیں کہ یہ مسئلہ حل ہو اور ان کے گھر میں شادی کے قابل لڑکے لڑکیوں کے لیے اچھے رشتے مل جائیں لیکن جو لوگ آگے بڑھ کے ان کی مدد کرنا چاہیں، انھیں عجیب نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ نیز شک و شبہ کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔
لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہمارے دین میں چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی بھی بہت اہمیت ہے۔ حتیٰ کہ راستے سے پتھر ہٹا دینا بھی نیکی ہے۔ اور ہم نہیں جانتے کہ ہمیں کس نیکی کا اللہ کریم کتنا اجر دیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جس نیکی کو چھوٹا سمجھا جا رہا ہو، نیت کی اچھائی نیز کسی اور وجہ سے بھی اس کا وزن بڑھ جائے۔ یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے نیکیوں کے اکاؤنٹ کو بھرتے چلے جائیں۔

رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ پاک ہے، جو شخص اپنے بھائی کی کسی حاجت کو پورا کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ہر قدم پر ستّر نیکیاں عطا فرماتا ہے۔
 

Ali Baba

محفلین
کوئی مولانا صاحب ٹھیک بتائیں گے لیکن سنا ہے کہ اس طرح کی کوئی حدیث ہے کہ کوئی خیرات کرو کوئی صدقہ کرو یا نیک کام کرو تو ایک ہاتھ سے کرو تو دوسرے والے ہاتھ کو علم نہ ہو یعنی چھپ کر کرو خاموشی سےکرو اور رازداری سے کرو لیکن پھر چھوٹی چھوٹی خیراتیں کر کے یا بڑی بڑی بھی کر کے ان کا ڈھنڈورا پیٹنا کیسا عمل ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ دوسروں کو ترغیب دینے کے لیے ایسا کیا یا لکھا ہے تو دوسروں کو ترغیب دینے کے لیے بھی کیا میں میں کرنا ضروری ہے، کہ میں نے یہ کیا کردیا، میرے فلاں رشتے دار نے یہ کر دیا وہ کر دیا؟
 

جاسمن

لائبریرین
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
ہم نے کچھ عرصہ پہلے اپنے سماجی بہبود کے کاموں کا دائرہ تھوڑا سا بڑھایا اور وٹزایپ پہ گروپ بنا کر رشتے ڈھونڈنے میں لوگوں کی مدد شروع کی۔

بظاہر رشتے کروانے کا کام ہمارے معاشرے میں کچھ عجیب سمجھا جاتا ہے۔ سب لوگ چاہتے ضرور ہیں کہ یہ مسئلہ حل ہو اور ان کے گھر میں شادی کے قابل لڑکے لڑکیوں کے لیے اچھے رشتے مل جائیں لیکن جو لوگ آگے بڑھ کے ان کی مدد کرنا چاہیں، انھیں عجیب نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ نیز شک و شبہ کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔
لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہمارے دین میں چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی بھی بہت اہمیت ہے۔ حتیٰ کہ راستے سے پتھر ہٹا دینا بھی نیکی ہے۔ اور ہم نہیں جانتے کہ ہمیں کس نیکی کا اللہ کریم کتنا اجر دیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جس نیکی کو چھوٹا سمجھا جا رہا ہو، نیت کی اچھائی نیز کسی اور وجہ سے بھی اس کا وزن بڑھ جائے۔ یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے نیکیوں کے اکاؤنٹ کو بھرتے چلے جائیں۔

رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ پاک ہے، جو شخص اپنے بھائی کی کسی حاجت کو پورا کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ہر قدم پر ستّر نیکیاں عطا فرماتا ہے۔

شمشاد بھائی
 

سیما علی

لائبریرین
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔
ہم نے کچھ عرصہ پہلے اپنے سماجی بہبود کے کاموں کا دائرہ تھوڑا سا بڑھایا اور وٹزایپ پہ گروپ بنا کر رشتے ڈھونڈنے میں لوگوں کی مدد شروع کی۔

بظاہر رشتے کروانے کا کام ہمارے معاشرے میں کچھ عجیب سمجھا جاتا ہے۔ سب لوگ چاہتے ضرور ہیں کہ یہ مسئلہ حل ہو اور ان کے گھر میں شادی کے قابل لڑکے لڑکیوں کے لیے اچھے رشتے مل جائیں لیکن جو لوگ آگے بڑھ کے ان کی مدد کرنا چاہیں، انھیں عجیب نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ نیز شک و شبہ کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔
لیکن ہم جانتے ہیں کہ ہمارے دین میں چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی بھی بہت اہمیت ہے۔ حتیٰ کہ راستے سے پتھر ہٹا دینا بھی نیکی ہے۔ اور ہم نہیں جانتے کہ ہمیں کس نیکی کا اللہ کریم کتنا اجر دیں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جس نیکی کو چھوٹا سمجھا جا رہا ہو، نیت کی اچھائی نیز کسی اور وجہ سے بھی اس کا وزن بڑھ جائے۔ یہ اللہ ہی جانتا ہے۔ ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے نیکیوں کے اکاؤنٹ کو بھرتے چلے جائیں۔

رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ پاک ہے، جو شخص اپنے بھائی کی کسی حاجت کو پورا کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ہر قدم پر ستّر نیکیاں عطا فرماتا ہے۔
جزاک اللّہ خیرا کثیرا
ماشاءاللّہ ماشاءآللّہ
بہت ہی نیک کام ہے جاسمن بٹیا اور اسکا اجرِ عظیم بھی۔ میری والدہ اس کام کو بہت شوق سے کرتی تھیں اور وہی مقصد کہ رب راضی ہو جائے ۔اکثر اوقات مسائل بھی آتے ۔ہم ناراض بھی ہوتے مگر ہمشہ کہتیں مقصد نیک ہو تو کچھ نقصان نہں ہوتا۔اور اُنکے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے تھوڑی کوشش کر لیتی ہوں۔بہت سکون ہے ۔برُائیاں بھی ملتی ہیں مگر آپکا مقصدنیک ہو تو چیزیں ٹھیک ہوتی جاتی ہیں۔۔۔۔۔
 
Top