تابش کا کلام

  1. محمد تابش صدیقی

    پیروڈی: بارشوں کے موسم میں ٭ تابش

    میری پہلی شعری کاوش یہ پیروڈی تھی جو اس شعور سے پہلے کی ہے کہ میں شاعری کر سکتا ہوں۔ :) "بارشوں کے موسم میں " مجھ کو نزلہ ہونے کی ریت اب بھی جاری ہے " اب کی بار سوچا ہے" میڈیسن بدل ڈالیں "پھر خیال آیا کہ" میڈیسن بدلنے سے "بارشیں نہیں رکتیں"
  2. محمد تابش صدیقی

    غزل: آرزوؤں کا شجر اک ہم کو بونا چاہیے ٭ تابش

    ایک کاوش احباب کی نذر: آرزوؤں کا شجر اک ہم کو بونا چاہیے زندہ رہنے کے لیے اب کچھ تو ہونا چاہیے ضبطِ پیہم سے کہیں پتھر نہ ہو جائے یہ دل صبر اچھی شے ہے لیکن غم پہ رونا چاہیے مستعد رہنا ہے گر، لازم ہے عجلت سے گریز لمبی راہوں کے مسافر کو بھی سونا چاہیے ہر کس و ناکس کو اپنے دل میں دیتا ہے مقام مجھ...
  3. محمد تابش صدیقی

    نظم: ام الکتاب (سورۃ الفاتحہ کا منظوم مفہوم) ٭ تابش

    ام الکتاب سورۃ الفاتحہ کا منظوم مفہوم ٭ لائقِ ہر ثنا، مالکِ دوجہاں تو بڑا مہرباں، تیری رحمت رواں بادشاہی بچے گی تری ہی یہاں جب الٹ جائے گی یہ بساطِ جہاں ہیں ہماری عبادات تیرے لیے تیرے آگے ہی پھیلائے ہیں جھولیاں سیدھے رستے پہ ہم کو چلا اے خدا! یعنی ہم کو دکھا جادۂ منعماں اپنے مغضوب لوگوں کی...
  4. محمد تابش صدیقی

    غزل: درِ مخلوق پہ سر اپنا جھکاتا کیا ہے ٭ تابش

    شہزاد احمد کی زمین میں ایک کاوش احباب کی بصارتوں کی نذر: درِ مخلوق پہ سر اپنا جھکاتا کیا ہے رب کے ہوتے ہوئے اوروں کو بلاتا کیا ہے کامیابی کے لیے چاہیے سعیِ پیہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے خواب سناتا کیا ہے وادیِ عشق میں کافی ہے مجھے راہِ حسینؓ مجھ کو رستہ کسی مجنوں کا بتاتا کیا ہے حاکمِ شہر! ترے ہاتھ...
  5. محمد تابش صدیقی

    غزل: کیوں ہے ہم سے خدا خفا مت پوچھ ٭ تابش

    ایک طرح پر تجرباتی کاوش، نقد و تبصرہ کے لیے حاضر۔ :) احباب کی بصارتوں کی نذر: کیوں ہے ہم سے خدا خفا مت پوچھ ظلم اتنا ہوا روا، مت پوچھ راہزن کر لیے شریکِ سفر کیوں لٹا اپنا قافلہ مت پوچھ منزلِ عشق کا ہے قصد تو پھر پست ہمت سے راستہ مت پوچھ اذنِ ساقی ہے آج، پینے دے کیا ہے اس میں برا، بھلا مت...
  6. محمد تابش صدیقی

    غزل: عبث ہے دوڑ یہ آسائشِ جہاں کے لیے ٭ تابش

    عبث ہے دوڑ یہ آسائشِ جہاں کے لیے کہ یہ جہان بنا ہی ہے امتحاں کے لیے ہوا کی زد میں نشیمن ہے اب تو ڈر کیسا چنی تھی شاخِ بلند اپنے آشیاں کے لیے وہ آبیاری کرے یا کوئی کلی مسلے بنا ہے باغ ہی سارا یہ باغباں کے لیے ہے شور تب سے مری بے حسی کا دنیا میں بچا لیے تھے کچھ آنسو غمِ نہاں کے لیے نکھار آتا...
  7. محمد تابش صدیقی

    غزل: بڑھ گیا ظلم و ستم اتنا کہ روٹھا بادل ٭ تابش

    ایک تجربہ، ایک کاوش احبابِ محفل کی بصارتوں کی نذر: بڑھ گیا ظلم و ستم اتنا کہ روٹھا بادل روز بن برسے گزرتا ہے گرجتا بادل یہ برستا ہے نہ چھَٹتا ہے مری آنکھوں سے کب سے ٹھہرا ہے تری یاد کا گہرا بادل پھر کوئی آہِ رسا چرخِ کہن تک پہنچی آج کی رات بہت ٹوٹ کے برسا بادل بغض، کینہ و کدورت سے کرو پاک یہ...
  8. محمد تابش صدیقی

    غزل: رہے گی ابتلا، ایسا نہیں ہے ٭ تابش

    ایک طرحی غزل احبابِ محفل کی بصارتوں کی نذر: رہے گی ابتلا، ایسا نہیں ہے نہ پوری ہو دعا، ایسا نہیں ہے پکارو اس کو ہر رنج و الم میں وہ ہو جائے خفا، ایسا نہیں ہے شکستہ ناؤ امت کی سنبھالے کوئی بھی ناخدا ایسا نہیں ہے؟ چلے آؤ، اسے کوفہ نہ سمجھو "مرا شہرِ وفا ایسا نہیں ہے" پڑے جس میں پرکھنے کی...
  9. محمد تابش صدیقی

    پیروڈی: بےدردی٭ تابش

    بےدردی (علامہ اقبالؒ سے معذرت) ٭ تاروں پر واپڈا کی تنہا چڑیا تھی کوئی نکمی بیٹھی کہتی تھی کہ صبح سر پہ آئی سپنے تکنے میں شب گزاری اُٹھوں کس طرح میں یہاں سے سستی سی چھا گئی ہے ایسی دیکھی چڑیا کی کاہلی تو بجلی کوئی پاس ہی سے بولی "حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے" آتی ہوں گرچہ میں ذرا سی کیا غم...
  10. محمد تابش صدیقی

    غزل: سکونِ شب میں میسر سہانے خواب نہیں ٭ محمد تابش صدیقی

    ایک کاوش احباب کی بصارتوں کی نذر: سکونِ شب میں میسر سہانے خواب نہیں بوقتِ شام سرہانے جو اب کتاب نہیں ہیں پھول اور بھی تزئینِ گلستاں کے لیے دل و نگاہ کی تسکیں فقط گلاب نہیں متاعِ عیش، لباسِ حریر و فرشِ گل یہ ہیں سراب، کہو لاکھ تم سراب نہیں لزومِ راہِ وفا ہیں خلوص و قربانی مفادِ ذات و غرض،...
  11. محمد تابش صدیقی

    نظم: زنگ آلود بینچ ٭ محمد تابش صدیقی

    ایک نظم احباب کی بصارتوں کی نذر باغ میں زنگ آلود اک بینچ پر کچھ فسانے لکھے ہیں، بہت پُر اثر کتنے آنسو بہائے گئے ہیں یہاں کتنے ہی غم بھلائے گئے ہیں یہاں خواب کتنے سجائے گئے ہیں یہاں کتنے ہی پَل بِتائے گئے ہیں یہاں کوئی آتا ہے آنسو بہا جاتا ہے کوئی سنگت کے لمحے بِتا جاتا ہے کوئی خواب اپنے سارے...
  12. محمد تابش صدیقی

    غزل: جفاؤں کی بپھری ہوا میں چراغِ وفا رکھ رہا ہوں، جسارت تو دیکھو ٭ تابش

    ایک کاوش احباب کی بصارتوں کی نذر جفاؤں کی بپھری ہوا میں چراغِ وفا رکھ رہا ہوں، جسارت تو دیکھو میں نفرت کی بستی میں الفت کا اظہار کرنے لگا ہوں، شجاعت تو دیکھو ستم گر سے چارہ گری کی تمنا ہے، رہزن جو ہیں اُن کو رہبر کیا ہے میں بارش میں کچی چھتوں پر بھروسہ کیے جا رہا ہوں، حماقت تو دیکھو زمانے کے...
  13. محمد تابش صدیقی

    نظم: مجھے انجان رہنے دو ٭ محمد تابش صدیقی

    مجھے انجان رہنے دو ٭ مجھے خاموش رہنے دو ذرا کچھ دن مجھے مدہوش رہنے دو ابھی تو کچھ نہیں بگڑا ابھی تو میرے گھر آنگن کا ہر موسم سہانا ہے ابھی احساس دنیا کی حسیں بانہوں میں سوتا ہے مجھے کچھ دیر رہنے دو طرب انگیز خوابوں میں مجھے منزل نظر آتی ہے صحرا کے سرابوں میں مجھے لاعلم رہنے دو ابھی تو کچھ...
  14. محمد تابش صدیقی

    مختصر نظم: خواب

    ذرا مختلف تجربہ کی خاطر ایک مختصر نظم احباب کے ذوق کی نذر: خواب ٭ زندگی کے کینوس پر خواہشوں کے رنگوں سے خواب کچھ بکھیرے تھے وقت کے اریزر نے تلخیوں کی پت جھڑ میں سب کو ہی مٹا ڈالا ٭٭٭ محمد تابش صدیقی
  15. محمد تابش صدیقی

    غزل: خالق سے رشتہ توڑ چلے ٭ محمد تابش صدیقی

    ایک پرانی غزل مکمل ہونے کے بعد استادِ محترم کی رضامندی کے ساتھ احبابِ محفل کے ذوق کی نذر: خالق سے رشتہ توڑ چلے ہم اپنی قسمت پھوڑ چلے طوفان کے آنے سے پہلے ہم اپنے گھروندے توڑ چلے کچھ تعبیروں کے خوف سے ہی ہم خواب ادھورے چھوڑ چلے اب کس کی معیت حاصل ہو جب سایہ ہی منہ موڑ چلے شاید کہ تمہیں یاد...
  16. محمد تابش صدیقی

    غزل: وہی صبح ہے، وہی شام ہے ٭ محمد تابش صدیقی

    ایک کاوش استادِ محترم کی توجہ کے بعد احبابِ محفل کی بصارتوں کی نذر وہی صبح ہے، وہی شام ہے وہی گردشوں کو دوام ہے نہ چھپا سکا میں غمِ دروں کہ مرا ہنر ابھی خام ہے شبِ انتظار ہے عارضی یہی صبحِ نو کا پیام ہے دمِ وصل، وقفِ جنوں نہ ہو یہ بڑے ادب کا مقام ہے رہِ عشق ہے یہ سنبھل کے چل بڑے حوصلے کا یہ...
  17. محمد تابش صدیقی

    غزل: وفا کا اعلیٰ نصاب رستے

    ایک کاوش احبابِ محفل کی بصارتوں کی نذر: وفا کا اعلیٰ نصاب رستے صعوبتوں کی کتاب رستے ہیں سہل الفت کے رہرووں کو ہوں چاہے جتنے خراب رستے جو عذر ڈھونڈو، تو خار ہر سو ارادہ ہو تو، گلاب رستے چمک سے دھندلا گئی ہے منزل بنے ہوئے ہیں سراب رستے رہِ عزیمت کے راہیوں کو گناہ مسکن، ثواب رستے کمی ہے تیرے...
  18. محمد تابش صدیقی

    غزل: جو ہونا ہم فقیروں سے مخاطب ٭ تابش

    ایک کاوش استادِ محترم اعجاز عبید اور دیگر احباب سے رہنمائی لینے کے بعد احبابِ محفل کے ذوق کی نذر: جو ہونا ہم فقیروں سے مخاطب تو رہنا با ادب، حسبِ مراتب انہیں کا ہے مقدر کامیابی اٹھائیں راہِ حق میں جو مصائب قدم رکھا ہے جب خود ہی قفس میں تو پھر آہ و فغاں ہے نامناسب امیرِ وقت سے اُمّید کم ہے...
  19. محمد تابش صدیقی

    غزل: زعم رہتا تھا پارسائی کا ٭ محمد تابش صدیقی

    ایک غزل استادِ محترم اعجاز عبید صاحب اور کچھ دیگر احباب کی نظرِ ثانی کے بعد احباب کے ذوق کی نذر۔ بہتری کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔ زعم رہتا تھا پارسائی کا ہو گیا شوق خود نمائی کا چھین لیتا ہے تابِ گویائی ڈر زمانے میں جگ ہنسائی کا ناؤ طوفاں سے جب گزر نہ سکے ہیچ دعویٰ ہے ناخدائی کا خوش نہ ہو،...
  20. محمد تابش صدیقی

    نمکین غزل (ہزل):لے جو بیگم حساب، ہنستا ہے

    راحیل فاروق بھائی کی غزل پڑھی تو کچھ طبیعت رواں ہو گئی۔ جس کے سبب ان کی زمین پر یہ گستاخی سرزد ہوئی ہے۔ برداشت کیجیے۔ چچا غالب کے مصرع پر گستاخی کی اضافی معذرت۔ :) لے جو بیگم حساب، ہنستا ہے تیرا خانہ خراب، ہنستا ہے؟ اک تو کھاتا ہے خود اکیلے ہی اور کھا کر کباب، ہنستا ہے اُس کو مرہم لگا کے...
Top