ساغر صدیقی

  1. ش

    ساغر صدیقی محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا ۔ ساغر صدّیقی

    محفلیں لُٹ گئیں جذبات نے دم توڑ دیا ساز خاموش ہیں نغمات نے دم توڑ دیا ہر مسرت غمِ دیروز کا عنوان بنی وقت کی گود میں لمحات نے دم توڑ دیا اَن گِنت محفلیں محرومِ چراغاں ہیں ابھی کون کہتا ہے کہ ظلمات نے دم توڑدیا آج پھر بُجھ گئے جَل جَل کے امیدوں کے چراغ آج پھر تاروں بھری رات نے...
  2. ش

    ساغر صدیقی بُھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے ۔ ساغر صدّیقی

    بُھولی ہوئی صدا ہوں مجھے یاد کیجیے تم سے کہیں ملا ہوں مجھے یاد کیجیے منزل نہیں ہوں ، خضر نہیں ، راہزن نہیں منزل کا راستہ ہوں مجھے یاد کیجیے میری نگاہِ شوق سے ہر گُل ہے دیوتا میں عشق کا خدا ہوں مجھے یاد کیجیے نغموں کی ابتدا تھی کبھی میرے نام سے اشکوں کی انتہا ہوں مجھے یاد کیجیے گُم صُم...
  3. ش

    ساغر صدیقی رُودادِ محبّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کچھ بھول گئے ۔ ساغر صدّیقی

    رُودادِ محبّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کچھ بھول گئے دو دِن کی مُسرّت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گئے جب جام دیا تھا ساقی نے جب دور چلا تھا محفل میں اِک ہوش کی ساعت کیا کہئیے کُچھ یاد رہی کُچھ بھول گیے اب وقت کے نازک ہونٹوں پر مجروح ترنّم رقصاں ہے بیدادِ مشیّت کیا کہئیے کُچھ یاد...
  4. ش

    ساغر صدیقی میں التفاتِ یار کا قائل نہیں ہوں دوست ۔ ساغر صدّیقی

    میں التفاتِ یار کا قائل نہیں ہوں دوست سونے کے نرم تار کا قائل نہیں ہوں دوست مُجھ کو خزاں کی ایک لُٹی رات سے ہے پیار میں رونقِ بہار کا قائل نہیں ہُوں دوست ہر شامِ وصل ہو نئی تمہیدِ آرزو اتنا بھی انتظار کا قائل نہیں ہوں دوست دوچار دن کی بات ہے یہ زندگی کی بات دوچار دن کے پیار...
  5. فرخ منظور

    ساغر صدیقی ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں ۔ ساغر صدیقی

    غزل ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں جی میں آتا ہے الٹ دیں انکے چہرے کا نقاب حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں شمع جسکی آبرو پر جان دے دے جھوم کر وہ پتنگا جل تو جاتا ہے ، فنا ہوتا نہیں اب تو مدت سے رہ و رسمِ نظارہ بند ہے اب تو انکا طور پر بھی...
  6. پ

    ساغر صدیقی چند اشعار - ساغر صدیقی

    چند اشعار آؤ بادہ کشوں کی بستی سے کوئی انسان ڈھونڈ کر لائیں میں فسانے تلاش کرتا ہوں آپ عنوان ڈھونڈ کر لائیں انقلابِ حیات کیا کہیے آدمی ڈھل گئے مشینوں میں میرے نغموں ک دل نہیں لگتا ماہ پاروں میں، مہ جبینوں میں جاؤ اہلِ خرد کی محفل میں کیا کرو گے جنوں نشینوں میں رہبروں کے ضمیر...
  7. پ

    ساغر صدیقی غزل -شام خزاں کی گم صم بولی -ساغر صدیقی

    غزل شام خزاں کی گم صم بولی - جیون لمحے زہر کی گولی میرے آنسو اور ستارے - کھیل رہے ہیں آنکھ مچولی دو پھولوں کی خاطر ترسیں - آج بہاروں کے ہمجولی چاند کا سایہ چھت سے اترا - ہمسائے نے کھڑکی کھولی توڑ دیا دم دیوانوں نے - عمر جنوں کی پوری ہو لی پھول بھی ہے وہ کانٹا بھی ہے - من میلا...
  8. کاشفی

    ساغر صدیقی راہزن آدمی راہمنا آدمی - ساغر صدیقی

    راہزن آدمی راہنما آدمی با رہا بن چکا ہے خدا آدمی ہائے تخلیق کی کار پردازیاں خاک سی چیز کو کہہ دیا آدمی کھل گئے جنتوں کے وہاں زائچے دو قدم جھوم کر جب چلا آدمی زندگی خانقاہ شہود و بقا اور لوح مزار فنا آدمی صبحدم چاند کی رخصتی کا سماں جس طرح بحر میں‌ ڈوبتا آدمی کچھ فرشتوں کی...
  9. عمران شناور

    ساغر صدیقی مرے سوزِ دل کے جلوے یہ مکاں مکاں اجالے (ساغر صدیقی)

    مرے سوزِ دل کے جلوے یہ مکاں مکاں اجالے مری آہِ پر اثر نے کئی آفتاب ڈھالے مجھے گردشِ فلک سے نہیں احتجاج کوئی کہ متاعِ جان و دل ہے تری زلف کے حوالے یہ سماں بھی ہم نے دیکھا سرِ خاک رُل رہے ہیں گل و انگبیں کے مالک مہ و کہکشاں کے پالے ابھی رنگ آنسوؤں میں ہے تری عقیدتوں کا ابھی دل...
  10. عمران شناور

    ساغر صدیقی آنکھ روشن ہے جیب خالی ہے (ساغر صدیقی)

    آنکھ روشن ہے جیب خالی ہے ظلمتوں میں‌کرن سوالی ہے حادثے لوریوں کا حاصل ہیں وقت کی آنکھ لگنے والی ہے آئینے سے حضور ہی کی طرح چشم کا واسطہ خیالی ہے حسن پتھر کی ایک مورت ہے عشق پھولوں کی ایک ڈالی ہے موت اک انگبیں کا ساغر ہے زندگی زہر کی پیالی ہے (ساغر صدیقی)
  11. عمران شناور

    ساغر صدیقی زخمِ دل پربہار دیکھا ہے (ساغر صدیقی)

    زخمِ دل پربہار دیکھا ہے کیا عجب لالہ زار دیکھا ہے جن کے دامن میں‌کچھ نہیں ہوتا ان کے سینوں میں پیار دیکھا ہے خاک اڑتی ہے تیری گلیوں میں‌ زندگی کا وقار دیکھا ہے تشنگی ہے صدف کے ہونٹوں پر گل کا سینہ فگار دیکھا ہے ساقیا! اہتمامِ بادہ کر وقت کو سوگوار دیکھا ہے جذبہء غم...
  12. پ

    دو غزلیں - از بشیر بدر ، ساغر صدیقی

    ہمارے پاس تو آؤ، بڑا اندھیرا ہے کہیں نہ چھوڑ کے جاؤ ، بڑا اندھیرا ہے اُداس کر گئے بے ساختہ لطیفے بھی اب آنسوؤں سے رُلاؤ ، بڑا اندھیرا ہے کوئی ستارہ نہیں پتھروں کی پلکوں پر کوئی چراغ جلاؤ، بڑااندھیرا ہے حقیقتوں میں زمانے بہت گزار چکے کوئی کہانی سناؤ ، بڑا اندھیرا ہے کتابیں کیسی...
  13. پ

    ساغر صدیقی غزل - اے تغیر زمانہ یہ عجیب دل لگی ہے - ساغر صدیقی

    اے تغیر زمانہ یہ عجیب دل لگی ہے نہ وقارِ دوستی ہے نہ مجالِ دشمنی ہے یہی ظلمتیں چھنیں جو ترے سرخ آنچلوں میں انہی ظلمتوں سے شاید مرے گھر میں روشنی ہے مرے ساتھ تم بھی چلنا مرے ساتھ تم بھی آنا ذرا غم کے راستوں میں بڑی تیز تیرگی ہے یہ مشاہدہ نہیں ہے مرے درد کی صدا ہے میرے داغِ دل لیے ہیں تری...
  14. پ

    ساغر صدیقی وقت کی عمر کیا بڑی ہو گی - ساغر صدیقی

    وقت کی عمر کیا بڑی ہو گی اک ترے وصل کی گھڑی ہو گی دستکیں دے رہی ہے پلکوں پر کوئی برسات کی جھڑی ہو گی کیا خبر تھی کہ نوکِ خنجر بھی پھول کی ایک پنکھڑی ہو گی زلف بل کھا رہی ہے ماتھے پر چاندنی سے صبا لڑی ہو گی اے عدم کے مسافرو ہشیار راہ میں زندگی کھڑی ہو گی کیوں گرہ گیسوؤں میں ڈالی ہے جاں...
  15. محمد وارث

    ساغر صدیقی غزل - پوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دیے - ساغر صدیقی

    پوچھا کسی نے حال کسی کا تو رو دیے پانی میں عکس چاند کا دیکھا تو رو دیے نغمہ کسی نے ساز پہ چھیڑا تو رو دیے غنچہ کسی نے شاخ سے توڑا تو رو دیے اڑتا ہوا غبار سرِ راہ دیکھ کر انجام ہم نے عشق کا سوچا تو رو دیے بادل فضا میں آپ کی تصویر بن گئے سایہ کوئی خیال سے گزرا تو رو دیے رنگِ شفق سے آگ...
  16. فرخ منظور

    ساغر صدیقی چاک دامن کو جو دیکھا تو ملا عید کا چاند - ساغر صدّیقی

    چاک دامن کو جو دیکھا تو ملا عید کا چاند اپنی تقدیر کہاں بھول گیا عید کا چاند ان کے ابروئے خمیدہ کی طرح تیکھا ہے اپنی آنکھوں میں بڑی دیر چبھا، عید کا چاند جانے کیوں آپ کے رخسار مہک اٹھتے ہیں جب کبھی کان میں چپکے سے کہا، "عید کا چاند" دور ویران بسیرے میں دیا ہو جیسے غم کی دیوار سے...
  17. فرخ منظور

    ساغر صدیقی چراغ طور جلاؤ! بڑا اندھیرا ہے - ساغر صدّیقی

    چراغ طور جلاؤ! بڑا اندھیرا ہے ذرا نقاب اٹھاؤ! بڑا اندھیرا ہے ابھی تو صبح کے ماتھے کا رنگ کالا ہے ابھی فریب نہ کھاؤ! بڑا اندھیرا ہے وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں انہیں کہیں سے بلاؤ! بڑا اندھیرا ہے مجھے تمھاری نگاہوں پہ اعتماد نہیں مرے قریب نہ آؤ! بڑا اندھیرا ہے فراز ِعرش سے...
  18. زونی

    ساغر صدیقی دستور یہاں بھی گونگے ہیں فرمان یہاں بھی اندھے ہیں- ساغر صدیقی

    دستور یہاں بھی گونگے ہیں فرمان یہاں بھی اندھے ہیں اے دوست خدا کا نام نہ لے ایمان یہاں بھی اندھے ہیں تقدیر کے کالے کمبل میں عظمت کے فسانے لپتے ہیں مضمون یہاں بھی بہرے ہیں عنوان یہاں بھی اندھے ہیں زردار توقّع رکھتا ھے نادار کی گاڑھی محنت پہ مزدور یہاں بھی دیوانے ذیشان یہاں بھی اندھے ہیں...
  19. م

    ساغر صدیقی وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو

    وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو یہ کناروں سے کھیلنے والے ڈوب جائیں توکیا تماشا ہو بندہ پرور جو ہم پہ گزری ہے ہم بتائیں توکیا تماشا ہو آج ہم بھی تری وفاؤں پر مسکرائیں توکیا تماشا ہو تیری صورت جو اتفاق سے ہم بھول جائیں توکیا تماشا ہو وقت کی چند ساعتیں ساغر لوٹ آئیں...
Top