مَستِ غفلت ہے وہ ظالم، جونہیں بیخودِعشق
ہوشیاری کا تِرے دَور میں دعوہ ہےعبَث
ہم کو اُس شوخ سے اُمّیدِ کرَم ہے لیکن !
یاس کہتی ہے کہ، حسرت ! یہ تمنّا ہےعبَث
حسرت موہانی
خُو سے اُس محوِ تغافل کے جو آگاہ نہیں
آرزو وعدۂ جاناں پہ شکیبا ہے عبث
حالِ دل اُن سے نہ پوشیدہ رہا ہے، نہ رہے
اب تو اِس رازِ نمودار کا اخفا ہے عبث
حسرت موہانی
ہنگامۂ محفل ہے کوئی دَم، کہ چلا میں
ساقی مِرے ساغر میں ذرا کم، کہ چلا میں
جوعمرگُزاری ہے بڑی دَھج سے گُزاری
اب، کوئی خوشی ہے نہ کوئی غم، کہ چلا میں
احمد فراز
زاہد سے نہیں، حُسن کی سرکار سے پُوچھو
ہم بندۂ تسلیم و رضا ہیں، کہ نہیں ہیں
ہاں میں تو لِئے پھرتا ہوں اِک سجدۂ بیتاب
اُن سے بھی تو پوچھو، وہ خدا ہیں کہ نہیں ہیں
حفیظ جالندھری
یہ طُولِ عمرِ نامعقول و بے کیف
بُزرگوں کی دُعا ہے اور میں ہُوں
لہُو کے گھونٹ پینا اور جِینا
مسلسل اِک مزہ ہے اور میں ہُوں
حفیظ ایسی فلاکت کے دنوں میں
فقط شُکرِ خُدا ہے اور میں ہُوں
حفیظ جالندھری
سِلسِلے توڑ گیا، وہ سبھی جاتے جاتے
ورنہ اِتنے تو مراسِم تھے، کہ آتے جاتے
کتنا آساں تھا، تِرے ہجْر میں مرنا جاناں
پھر بھی اِک عمر لگی، جان سے جاتے جاتے
احمد فراز
وہ گیا تو ساتھ ہی لے گیا، سبھی رنگ اُتار کے شہر کا
کوئی شخص تھا میرے شہر میں، کسی دُور پار کے شہر کا
کسی اور دیس کی اور کو، سُنا ہے فراز چلا گیا
سبھی دُکھ سمیٹ کے شہر کے، سبھی قرض اُتار کے شہر کا
احمد فراز
آج اُنہیں کچھ اِس طرح جی کھول کر دیکھا کِئے
ایک ہی لمحے میں، جیسے عمْر بھر دیکھا کِئے
دل اگر بیتاب ہے، دل کا مُقدّر ہے یہی
جس قدر تھی ہم کو توفیقِ نظر دیکھا کِئے
حفیظ ہوشیارپوری
دیکھنے کا اب یہ عالم ہے، کوئی ہو یا نہ ہو
ہم جدھر دیکھا کئے، پہروں اُدھر دیکھا کِئے
حُسن کو دیکھا ہے ہم نے، حُسن کی خاطر حفیظ
ورنہ سب اپنا ہی معیارِ نظر دیکھا کِئے
حفیظ ہوشیارپوری
گُزرو نہ اِس طرح، کہ تماشا نہیں ہُوں میں
سمجھو، کہ اب ہُوں اور دوبارہ نہیں ہُوں میں
اِک طبْع رنگ رنگ تھی، سو نذرِ گلُ ہُوئی
اب یہ کہ، اپنے ساتھ بھی رہتا نہیں ہُوں میں
عبیداللہ علیم
محبّتوں کے یہ دریا اُتر نہ جائیں کہیں
جو دِل گُلاب ہیں، زخموں سے بھرنہ جائیں کہیں
پُکارتی ہی نہ رہ جائے یہ زمیں پیاسی
برَسنے والے یہ بادل گُزرنہ جائیں کہیں
عبیداللہ علیم
غزلِ
مجید امجد
تِرے فرقِ ناز پہ تاج ہے، مِرےدوشِ غم پہ گلِیم ہے
تِری داستاں بھی عظیم ہے، مِری داستاں بھی عظیم ہے
مِری کتنی سوچتی صُبْحوں کو یہ خیال زہْر پِلا گیا
کسی تپتے لمحے کی آہ ہے، کہ خِرامِ موجِ نسیم ہے
تہِ خاک، کرمکِ دانہ جُو بھی شریک رقصِ حیات ہے
نہ بس ایک جلوۂ طُور ہے، نہ بس...