غزلِ
اسدالله خاں غالب
کی وفا ہم سے تو غیر اُس کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچّھوں کو بُرا کہتے ہیں
آج ہم اپنی پریشانیِ خاطر اُن سے
کہنے جاتے تو ہیں، پر دیکھیے کیا کہتے ہیں
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، اِنھیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں
دل میں آ جائے ہے، ہوتی ہے جو...
شرح و بیانِ غم ہے اِک مطلبِ مُقیّد
خاموش ہُوں کہ معنی صدہا ہیں خامشی کے
بارِ الم اُٹھایا، رنگِ نِشاط دیکھا
آئے نہیں ہیں یونہی انداز بے حسی کے
اصغر گونڈوی
دُعا بلا تھی شبِ غم سُکونِ جاں کے لیے
سُخن بہانہ ہُوا مرگِ ناگہاں کے لیے
ہے اعتماد مِرے بخت خفتہ پر کیا کیا
وگرنہ خواب کہاں چشم پاسباں کے لیے
مومن خان مومن
اے بُتو! بہرِخُدا درپئے آزار نہ ہو
خیر، راحت نہ سہی، زیست تو دشوار نہ ہو
یا رب ایسا کوئی بت خانہ عطا کر جس میں !
ایسی گزرے، کہ تصوّر بھی گنہگار نہ ہو
اکبرالٰہ آبادی
مُعترِض ہو نہ مِری عُزلت و خاموشی پر
کیا کروں جبکہ کوئی محرمِ اسرار نہ ہو
قیمتِ دل تو گھٹانے کا نہیں میں اکبر !
بے بصیرت نہیں ہوتا، جوخریدار نہ ہو
اکبرالٰہ آبادی
جن مشغلوں سے کھیلتی رتی تھی کم سنی
اُن مشغلوں سے ہاتھ اُٹھائے ہوئے ہو تم
خود کو لیے دیئے ہو مگر کہہ رہے ہیں طَور
سِینے میں ایک حشر چھپائے ہوئے ہو تم
جوش ملیح آبادی
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
انُھیں، کہیں سے بُلاؤ بڑا اندھیرا ہے
فرازِعرش سے ٹُوٹا ہُوا کوئی تارہ
کہیں سے، ڈھونڈ کے لاؤ بڑا اندھیرا ہے
ساغر صدیقی
حُسنِ بے پروا کو دے کر دعوتِ لطف و کرم
عشق کے زیرِنگیں پھر ہردوعالم کیجئے
صبح سے تا شام رہئے قصۂ عارض میں گُم
شام سے تا صبْح ذکرِ زُلفِ برہم کیجئے
جوش ملِیح آبادی
نظر نظر بیقرار سی ہے، نفس نفس میں شرار سا ہے
میں جا نتا ہوں، کہ تم نہ آؤگے، پھر بھی کچھ انتظار سا ہے
یہ زلف بردوش کون آیا، یہ کِس کی آہٹ سے گُل کِھلے ہیں
مہْک رہی ہے فضائے ہستی، تمام عالم بہار سا ہے
ساغر صدیقی
یہ عجب قیامتیں ہیں تِری رہگزر میں گزراں
نہ ہُوا کہ مَرمِٹیں ہم ، نہ ہُوا کہ جی اُٹھیں ہم
لو سُنی گئی ہماری ، یُوں پِھرے ہیں دن کہ پھرسے!
وہی گوشۂ قفس ہے ، وہی فصْلِ گُل کا ماتم
فیض احمد فیض
یہ جفائے غم کا چارہ ، وہ نجات دل کا عالم
تِرا حُسن دستِ عیسیٰ ، تری یاد رُوئے مریم
تِری دِید سے سوا ہے ترے شوق میں بہاراں
وہ چمن جہاں گِری ہے تری گیسوؤں کی شبنم
فیض احمد فیض
تِری کج ادائی سے ہار کے، شبِ انتظار چلی گئی
مِرے ضبطِ حال سے رُوٹھ کر، مِرے غم گُسار چلے گئے
نہ سوالِ وصْل ، نہ عرضِ غم ، نہ حکایتیں نہ شکایتیں
تِرے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے
فیض احمد فیض