غزلِ
مرزا اسد الله خاں غالب
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں
فرصتِ کاروبارِ شوق کِسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں
دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خطّ و خال کہاں
تھی وہ اِک شخص کے تصّور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں
ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میں طاقت، جگر...
ہجر کی شب، ہم کو یوں کہتی ہے، ہنگامِ اخیر
ہوچکی اختر شُماری، دَم شُماری کیجیے
کیا کریں ہم ! صبْر پر اپنا نہیں کچُھ اِختیار
ورنہ یوں مجبُور ہوتے، اختیاری کیجیے
غلام ہمدانی مصحفی
غزلِ
اسد الله خاں غالب
تسکِیں کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر مِلے
حُورانِ خلد میں تری صورت مگر مِلے
اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعدِ قتل
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر مِلے
تجھ سے تو کچھ کلام نہیں، لیکن اے ندیم
میرا سلام کہیو اگر نامہ بر مِلے
تم کو بھی ہم دِکھائیں، کہ مجنوں نے کیا کِیا...
عشقِ بُتاں کو جی کا جنجال کرلیا ہے
آخر یہ میں نے اپنا کیا حال کرلیا ہے
سنجیدہ بن کے بیٹھو، اب کیوں نہ تم، کہ پہلے
اچھی طرح سے مجھ کو، پامال کرلیا ہے
حسرت موہانی
تجھے یاد کیا نہیں ہے، میرے دل کا وہ زمانہ
وہ ادب گہِ محبّت، وہ نِگہ کا تازیانہ
یہ بُتانِ عصْرِحاضِر کے بنے ہیں مدرِسے میں
نہ ادائے کافِرانہ، نہ تراشِ آزَرانہ
علامہ محمد اقبال
نہیں اِس کھُلی فضا میں کوئی گوشۂ فراغت
یہ جہاں عجب جہاں ہے نہ قفس، نہ آشیانہ
تِری بندہ پروَرِی سے مِرے دن گزر رہے ہیں
نہ گِلہ ہے دوستوں کا، نہ شکایتِ زمانہ
علامہ محمد اقبال
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو مِلیں گے
کیا خُوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
ناداں ہو جو کہتے ہو کہ، کیوں جیتے ہیں غالب
قسمت میں، ہےمرنے کی تمنا کوئی دن اور
اسد الله خاں غالب
ساقی، بہ جلوہ، دشمنِ ایمان و آگہی
مُطرب، بہ نغمہ، رہزنِ تمکین و ہوش ہے
لطفِ خرامِ ساقی و ذوقِ صدائے چنگ
یہ جنتِ نگاہ، وہ فردوسِ گوش ہے
اسد الله خاں غالب