حیات رازِ سُکوں پا گئی ازل ٹھہری
ازل میں تھوڑی سی لرزِش ہوئی حیات ہوئی
تھی ایک کاوشِ بےنام، دل میں فِطرت کے
سوا ہوئی تو وہی آدمی کی ذات ہوئی
فراق گورکھپوری
جِیتنے میں بھی، جہاں جی کا زیاں پہلے سے ہے !
ایسی بازی ہارنے میں کیا خسارہ دیکھنا
آئینے کی آنکھ ہی کچھ کم نہ تھی میرے لئے
جانے اب، کیا کیا دِکھائے گا تمھارا دیکھنا
پروین شاکر
آج ملبُوس میں ہے کیسی تھکن کی خوشبو
رات بھرجاگی ہُوئی جیسے دُلھن کی خوشبو
پیرہن میرا مگراُس کے بدن کی خوشبو
اُس کی ترتیب ہے ایک ایک شِکن کی خوشبو
پروین شاکر
غزلِ
پروین شاکر
آج ملبُوس میں ہے کیسی تھکن کی خوشبو
رات بھرجاگی ہُوئی جیسے دُلھن کی خوشبو
پیرہن میرا مگراُس کے بدن کی خوشبو
اُس کی ترتیب ہے ایک ایک شِکن کی خوشبو
موجۂ گُل کو ابھی اِذنِ تَکلّم نہ مِلے
پاس آتی ہے کسی نرْم سُخن کی خوشبو
قامتِ شعر کی زیبائی کا عالم مت پُوچھ
مہْرباں جب...
اصلاحی بھائی !
ممنُون ہُوں اظہارِ خیال اور پیش کردہ غزل کی پذیرائی، بلکہ اِس ہمّت افزائی پر !
خوشی ہوئی یہ جان کر، کہ انتخاب آپ کو پسند آتے ہیں:)
تشکّر ایک بارپھر سے
بہت خوش رہیں
(ویسے کیا یہ آپ کو معلوم ہے، کہ چُن چُن پاکستان فلم انڈسٹری کی مزاحیہ اداکارہ تھیں ؟):)
نگاہِ شوق کسی رُخ سے مطمئن نہ ہُوئی
ہر ایک شے میں نظر آئی کچھ کمی مجھ کو
میں اِک چراغِ سرِ دشتِ نامُرادی تھا
ہَوائے شہرِ تمنّا بُجھا گئی مجھ کو
حزیں صدیقی
چاہت مِری، چاہت ہی نہیں آپ کے نزدیک
کچھ میری حقیقت ہی نہیں آپ کے نزدیک
اگلی سی نہ راتیں ہیں، نہ گھاتیں ہیں، نہ باتیں
کیا اب میں وہ، حسرت ہی نہیں آپ کے نزدیک
حسرت موہانی
کچھ قدر تو کرتے مِرے اظہارِ وفا کی
شاید یہ محبّت ہی نہیں آپ کے نزدیک
عُشّاق پہ کچھ حد بھی مُقرّر ہے سِتم کی
یا اِس کی نہایت ہی نہیں آپ کے نزدیک
حسرت موہانی
تِرے خیال کی لوَ میں جدھر جدھر جائیں
چراغ جل اُٹھیں، منظر نِکھر نِکھر جائیں
میں اپنے بکھرے ہوئے خواب چُن رہا ہوں ابھی
طلوعِ صُبْح کے لمحے ذرا ٹھہر جائیں
حزیں صدیقی
ستم ظریفئ صُورت گرِ بہار نہ پُوچھ
بساطِ رنگ اُلٹ دی جھلک دِکھا کے مجھے
اُدھر سے تِیر، جو آئے سجا لِئے دل میں
نگاہِ ناز پشیماں ہے آزما کے مجھے
حزیں صدیقی
کیا کام اُنہیں پُرسِشِ اربابِ وفا سے
مرتا ہے تو مرجائے کوئی، اُن کی بَلا سے
دیوانہ کِیا ساقی محفل نے سبھی کو
کوئی نہ بچا اُس نظرِ ہوش رُبا سے
حسرت موہانی
یہ کاروبارِ مشیّت ہے کس طرح مانوں !
کسی کے گھر میں چراغاں، کسی کے گھر سائے
نگار خانۂ فنکارِ نَو کا سرمایہ
لہو ، شِکستہ لکیریں ، خلا ، سفر ، سائے
حزِیں صدیقی