شوق یہ تھا کہ محبّت میں جلیں گے چُپ چاپ
رنج یہ ہے کہ، تماشہ نہ دِکھایا کوئی
شہْر میں ہمدمِ دیرِینہ بُہت تھے ناصر
وقت پڑنے پہ مِرے کام نہ آیا کوئی
ناصرکاظمی
گُزر رہے ہیں عجب مرحلوں سے دِیدہ و دِل
سحر کی آس تو ہے، زندگی کی آس نہیں
مُجھے یہ ڈر ہے تِری آرزو نہ مٹ جائے
بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں
ناصر کاظمی
اُمِید و یاس کے اب وہ پیام بھی تو نہیں
حیاتِ عشق کی، وہ صبْح وشام بھی تو نہیں
بس اِک فریبِ نظر تھا جمالِ گیسوو رُخ
وہ صبح بھی تو نہیں اب، وہ شام بھی تو نہیں
فراق گورکھپوری
ہمیں اپنے گھر سے چلے ہوئے، سرِ راہ عمر گزر گئی
کوئی جُستجُو کا صِلہ مِلا نہ سفر کا حق ہی ادا ہُوا
۔۔۔۔۔
ہمیں اِس کا کوئی بھی حق نہ تھا، کہ شریکِ بزْم خلُوص ہوں
نہ ہمارے پاس نقاب تھا، نہ کچھ آستیں میں چھپا ہُوا
اقبالعظیم
دلِ حزِیں میں تِرے شوقِ مُضطرب کے نِثار
اِس انجُمن میں تُجھے کوئی کام بھی تو نہیں
بیاں ہوں کیسے وہ دیرینہ ارتباطِ نہاں
کہ تُجھ سے، اگلے پیام و سلام بھی تو نہیں
فراق گورکھپوری
اب آئے ہو تو یہاں کیا ہے دیکھنے کیلیے
یہ شہر کب سے ہے ویراں، وہ لوگ کب کے گئے
تم اپنی شمْعِ تمنّا کو رو رہے ہو فراز!
ان آندھیوں میں تو پیارے چراغ سب کے گئے
احمد فراز
آج تو ہم کو پاگل کہہ لو، پتّھر پھینکو، طنز کرو
عشق کی بازی کھیل نہیں ہے، کھیلو گے تو ہارو گے
اہلِ وفا سے ترکِ تعلّق کرلو، پر اِک بات کہیں
کل تم اِن کو یاد کرو گے، کل تم اِنہیں پُکارو گے
ابن انشا
نہ راہزن، نہ کسی رہنما نے لُوٹ لیا
ادائے عشق کو رسمِ وفا نے لُوٹ لیا
نہ اب خُودی کا پتہ ہے نہ بیخودی کا جِگر
ہر ایک لُطف کو، لُطفِ خُدا نے لُوٹ لیا
جِگر مُراد آبادی
کشورِ عشق میں دُنیا سے نِرالا ہے رواج
کام جو، بَن نہ پڑیں یاں وہ روا ہوتے ہیں
ہیچ ہم سمجھیں دو عالم کو تو حیرت کیا ہے
رُتبے عُشّاق کے، اِس سے بھی سوا ہوتے ہیں
حسرت موہانی
یا رب! غمِ ہجراں میں اِتنا تو کیا ہوتا
جو ہاتھ جگر پہ ہے، وہ دست دُعا ہوتا
اِک عشق کا غم آفت، اور اُس پہ یہ دل آفت
یا غم نہ دِیا ہوتا، یا دل نہ دِیا ہوتا
چراغ حسن حسرت
حرم میں، دَیروکلیسا میں، خانقاہوں میں
ہمارے عشق کے چرچے کہاں کہاں نہ رہے
کبھی کبھی، رہی وابستگی قفس سے بھی
رہے چمن میں تو پابندِ آشیاں نہ رہے
سیماب اکبرآبادی
رہیں گے چل کے کہیں اوراگر یہاں نہ رہے
بَلا سے اپنی جو آباد گُلسِتاں نہ رہے
ہم ایک لمحہ بھی خوش زیرِ آسماں نہ رہے
غنِیمت اِس کوسَمَجْھیے کہ جاوِداں نہ رہے
سیماب اکبرآبادی
کعبۂ دل کو نہ تاکو تم جفا کے واسطے
اے بُتو یہ گھر خُدا کا ہے، خُدا کے واسطے
تم بھی اب نامِ خُدا مشقِ ستم اور جور ہو
آسمان سے مشورہ کرلو جفا کے واسطے
قمر جلالوی