(٣٠)
ہے ایک ہی جلوہ جو اِدھر بھی ہے اُدھر بھی
آئینہ بھی حیران ہے و آئینہ نگر بھی
ہو نُور پہ کچھ اور ہی اِک نُور کا عالم
اُس رُخ پہ جو چھا جائے مِرا کیفِ نظر بھی
تھا حاصلِ نظّارہ فقط ایک تحیّر
جلوے کو کہے کون کہ اب گُم ہے نظر بھی
اب تو یہ تمنّا ہے کسی کو بھی نہ دیکھوں
صُورت جو دِکھا دی ہے تو...