(٣٨)
سامنے اُن کے تڑپ کر اِس طرح فریاد کی!
میں نے پُوری شکل دِکھلادی دلِ ناشاد کی
اب یہی ہے وجہِ تسکِیں خاطرِ ناشاد کی
زندگی میں نے دیارِ حُسن میں برباد کی
ہوش پر بجلی گِری، آنکھیں بھی خِیرہ ہوگئیں
تم تو کیا تھے، اِک جَھلک سی تھی تُمھاری یاد کی
چل دِیا مجنُوں تو صحرا سے کسی جانب مگر...