جیتنے میں بھی جہاں، جی کا زیاں پہلے سے ہے
ایسی بازی ہارنے میں کیا خسارہ دیکھنا
آئینے کی آنکھ ہی کچھ کم نہ تھی میرے لئے!
جانے اب ، کیا کیا دکھائے گا تمہارا دیکھنا
پروین شاکر
گزُار دُوں تِرے غم میں جوعمرِ خضرمِلے
تِرے نِثار، یہ دو دِن کی زندگی کیا ہے
وہ اور ہیں جو طلب گارِ خُلد ہیں واعظ
نگاہِ یار سلامت، مُجھے کمی کیا ہے
خمار بارہ بنکوی
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
کیا سانحہ یاد آیا رزمی کی تباہی کا
کیوں آپ کی نازک سی آنکھوں میں نمی آئی
مظفر رزمی
ایسا منظر کبھی تو پاؤں میں
وہ سنبھل جائیں لڑکھڑاؤں میں
ڈوبنا ہی اگر مقدر ہے
تیری آنکھوں میں ڈوب جاؤں میں
کیا کہا، تم کو بھول کر دیکھوں!
اِس سے بہتر ہے مر نہ جاؤں میں
جگمگا جائے میرا فن، رزمی
وہ سُنیں اورغزل سُناؤں میں
مظفر رزمی کیرانوی
اُن کا خیال بن گئیں سینے کی دھڑکنیں
نغمہ مقامِ صوت و صدا سے گزر گیا
اعجازِ بے خودی ہے کہ، یہ حُسنِ بندگی
اِک بُت کی جستجو میں خدا سے گزر گیا
ساغر صدیقی
پھیلی ہیں فضاؤں میں اِس طرح تِری یادیں
جس سمت نظر اُٹّھی آواز تِری آئی
ہر دردِ محبّت سے اُلجھا ہے غمِ ہستی
کیا کیا ہمیں یاد آیا جب یاد تِری آئی
صُوفی غلام مصطفیٰ تبسّم