بہت خوب اور مفید اور سچی باتوں پر مبنی اس مضمون یا مراسلہ پر بہت سی داد قبول کیجئے
اور لکھتی رہیں ، الله کرے زور بیاں اور زیادہ
بہت سی نیک خواہشات اور دعائیں
فکر کی بات نہیں شمشاد بھائی، غلطی ہماری سرشت میں ہے کہ ہم آدمی ہیں
عندلیب صاحبہ کی بات صحیح ہے کہ باتیں سوچ کر دماغ پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے ۔
یہ دنیا کونسی جنت ہے جس سے نکلنے کا ڈر دامن گیر ہے
غزلِ
میر سوز
یار اگر صاحبِ وفا ہوتا
کیوں مِیاں جان! کیا مزا ہوتا
ضبط سے میرے تھم رہا ہے سرشک
ورنہ اب تک تو بہہ گیا ہوتا
جان کے کیا کروں بیاں احساں
یہ نہ ہوتا تو مر گیا ہوتا
رُوٹھنا تب تجھے مناسب تھا
جو تجھے میں نے کچھ کہا ہوتا
ہاں میاں جانتا تُو میری قدر
جو کہیں تیرا دل لگا ہوتا
پیارکے بدلے، اُسے پیار نہیں ہے منظور
اجر میں میری پرستش کے، نوازش ہی سہی
لذّتِ وصل کا دریا نہ سہی قسمت میں
پردۂ دِید پہ دِیدار کی بارش ہی سہی
ڈاکٹر جاوید جمیل
غزل
ڈاکٹرجاوید جمیل
زیست نعمت نہ سہی، وقت کی گردش ہی سہی
ابرِ رحمت نہ سہی، آتشِ شورش ہی سہی
دل مِرا آپ کا ہے، جان مِری آپ کی ہے
آپ کو مجھ سے سدا کے لیے رنجش ہی سہی
زیست میں آ کے مِری مجھ کو پرکھ لے اک بار
حکم تو چلتا نہیں تجھ پہ، گزارش ہی سہی
اُس کے دامن میں ہر اک حال میں بسنا ہے مجھے
سیدھے...
منہ پہ رکھ دامنِ گل روئیں گے مُرغانِ چمن
ہر روِش خاک اُڑائے گی صبا میرے بعد
تیز رکھنا سرِ ہر خار کو اے دشتِ جنوں
شاید آ جائے کوئی آبلہ پا میرے بعد
میر تقی میر