غزل
پاس رہ کر جو دور ہوتے ہیں
ایسے ظالم ضرور ہوتے ہیں
جن کے لہجے میں کُچھ ملاوٹ ہو
اُن کے دل میں فتور ہوتے ہیں
ہم تو خود سے خفا ہیں اب صاحب
آپ کیونکر حضور ہوتے ہیں
رہنے دیجئے علاج صاحبؔ کا
اِن سے روگی غیور ہوتے ہیں
اُن کی محفل میں گر نہیں چرچا
ہم پہ طعنے ضرور ہوتے ہیں
محمد عظیم صاحب
غزل
جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے
وہ زمین و زماں سے اٹھتا ہے
بوجھ غم کا ہے میرے کاندھے جو
کب وہ مجھ ناتواں سے اٹھتا ہے
روز اُٹھتی ہے آہ سی دل میں
روز اک درد جاں سے اٹھتا ہے
کیا مرے گلستاں سے اُٹھتا ہے
یہ جو دھواں یہاں سے اُٹھتا ہے
بعد مرنے کے جی اُٹھے کیونکر
جو ترے اِس جہاں سے اٹھتا ہے
آہ صاحب...
مشق
’’ یہ دُھواں سا کہاں سے اُٹھتا ہے ‘‘ ( میر تقی میر )
میری رگ رگ سے جاں سے اٹھتا ہے
جو دھواں سا یہاں سے اُٹھتا ہے
یُوں اُٹھایا گیا ہُوں اُس در سے
جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے
خلد کی محفلوں میں کیوں جائے
جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے
درد اُلفت کا میرے اِس دل میں
اُس کی ہر ایک ناں سے اٹھتا ہے
ہم...
دُنیاوی علوم چاہے جتنے بھی مرتب کرلئے جائیں روحانی علوم تک نہیں پہنچ سکتے
کھلی آنکھوں پر مت جائیں صاحب کھلی آنکھیں تو فقط دُنیا دکھاتی ہیں کبھی اپنی اُن آنکھوں سے بھی دیکھئے جنہیں ازل سے بند رکھنے پر مجبور کر دیا گیا ہمیں۔
اللہ بہتر جاننے والا ہے ۔
ہم نے تو بس اتنا دیکھا کہ جو جاننے والا ہے وہ...
غزل
ٹوٹنے آسمان ہیں ہم پر
مہرباں مہربان ہیں ہم پر
ہم کو کتنا یقین اُن پر ہے
اُن کو کیا کیا گمان ہیں ہم پر
داغ دامن کے دُھل چکے لیکن
اب بھی دھبے، نشان ہیں ہم پر
ہم تو بنجر زمین ہیں صاحب
کیوں جھگڑتے کسان ہیں ہم پر
کوئی سائہ کوئی پناہ دیں تو
تب یہ سات آسمان ہیں ہم پر
محمد عظیم صاحب
غزل
دیکھئے کیا جواب دیتے ہیں
خط میں اُن کو سلام بھیجا ہے
ہم نے لکھا ہے حال اِس دل کا
لکھ کے اُن کے ہی نام بھیجا ہے
آج ساقی کی مست نظروں نے
اپنی جانب بھی جام بھیجا ہے
اِس زمیں پر اُس آسماں اپنا
ایک قائم مقام بھیجا ہے
بادشاہی تو دیکھئے اُن کی
ایک ادنی غلام بھیجا ہے
ہم نے صاحب خطوط لکھے ہیں...