صائب از گردِ خجالت، شدہ در خاک نہاں
موجۂ رحمتِ دریائے عطائے تو کجاست
صائب تبریزی
صائب شرمندگی کی گرد سے خاک میں جا چُھپا ہے، تیری عطا کے دریا کی موجِ رحمت کہاں ہے؟
ز شغلِ کارِ خودم یک نفَس رہائی نیست
محبتے کہ دہَد از خودم فراغ کجاست
نظیری نیشاپوری
مجھے خود بینی سے ایک لمحے کے لیے بھی رہائی نہیں ہے، وہ محبت کہ جو مجھے خود بینی اور انا پرستی سے نجات دے دے، وہ کہاں ہے؟
جائے تو دانم کہ دایم در دلِ ریشِ منست
لیک آں مسکین سرگرداں نمی دانم کجاست
ناصر بخاری
میں جانتا ہوں کہ تیری جگہ ہمیشہ کے لیے میرے پارہ پارہ دل میں ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ وہ میرا مسکین سرگرداں دل کہاں ہے؟
چشمِ حسن گر نریخت بر سرِ کوئے تو خوں
بر در و دیوارِ تو نقش و نگار از کجاست؟
امیر حسن دہلوی
حسن کی آنکھوں نے اگر تیرے کوچے میں خون نہیں بہایا تو پھر تیرے در و دیوار پر یہ سارے نقش و نگار کہاں سے آئے ہیں؟