نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    آج کا شعر

    حد بنانا چاہتا تھا لا انتہا میں اے منیر گھر بنا کر ذہن کی آشفتگی کچھ کم ہوئی (منیر نیازی)
  2. فرخ منظور

    آیا تھا گھر سنوارنے احسان کر گیا ؟

    میرا خیال اسکے برعکس ہے صرف خدا داد صلاحیت کچھ نہیں کرتی اسکے لیے کافی محنت بھی درکار ہے - ہاں خدا داد صلاحیّت ignite کرنے کا کام ضرور کرتی ہے -
  3. فرخ منظور

    آج کا شعر

    زنگی کے حسین ترکش میں کتنے بے رحم تیر ہوتے ہیں تیری محفل میں بیٹھنے والے کتنے روشن ضمیر ہوتے ہیں (عدم)
  4. فرخ منظور

    آیا تھا گھر سنوارنے احسان کر گیا ؟

    اور یونس صاحب اگر آپ کمپیوٹر میں اتنے ہی کورے ہیں‌(جو کہ شائد آپ نہیں ہیں) تو لفظی طور پر ہی لکھ دیجیے کہ یہ تحریر فلاں صاحب اور فلاں ویب سائٹ سے لی گئی ہے - اور بے چارے راقم کا کم ازکم شکریہ ہی ادا کر دیا کریں - تعارف میں نظم گلزار کی- اقتباس یوسفی کا - اور مضمون مختلف ویب سائٹ سے - اللہ آپ کی...
  5. فرخ منظور

    تعارف شمو میرا نام

    خوش آمدید شمّع صاحبہ!
  6. فرخ منظور

    گلزار معنی کا عذاب - گلزار

    بہت شکریہ شمشاد صاحب، وارث بھائی اور دوست !
  7. فرخ منظور

    گلزار کرید - گلزار

    بہت شکریہ شگفتہ - جی تو میرا بھی چاہتا ہے - :)
  8. فرخ منظور

    گلزار کرید - گلزار

    کرید - گلزار جی چاہے کہ پتھر مار کے سورج ٹکڑے ٹکڑے کردوں سارے فلک پر بکھرا دوں‌اس کانچ کے ٹکڑے جی چاہے کہ لمبی ایک کمند بنا کر دور افق پر ہُک لگاؤں کھینچ کے چادر چیر دوں ساری جھانک کے دیکھوں پیچھے کیا ہے شاید کوئی اور فلک ہو!
  9. فرخ منظور

    تعارف کس شان سے آیا کہ جمود توڑ گیا

    ثاقب انصاری صاحب عرف باغی، خوش آمدید - آپ کی تحریر میرے تو سر کے اوپر سے گزر گئی - نہ سمجھ سکا کہ آپ کیا فرمانے کی کوشش کر رہے ہیں -
  10. فرخ منظور

    آج کا شعر

    آپ کی یاد آتی رہی رات بھر چشمِ نم مسکراتی رہی رات بھر (مخدوم محئ الدین)
  11. فرخ منظور

    گلزار معنی کا عذاب - گلزار

    معنی کا عذاب - گلزار چوک سے چل کر، منڈی اور بازار سے ہوکر لال گلی سے گزری ہے کاغذ کی کشتی بارش کے لاوارث پانی پر بیٹھی بیچاری کشتی شہر کی آوارہ گلیوں میں سہمی سہمی گھوم رہی ہے پوچھ رہی ہے ہر کشتی کا ساحل ہوتا ہے تو کیا میرا بھی کوئی ساحل ہوگا بھولے بھالے اک بچے نے بے معنی کو معنی دے...
  12. فرخ منظور

    آج کا شعر

    راہ آسان ہو گئی ہوگی جان پہچان ہو گئی ہوگی تیری زلفوں کو چھیڑتی تھی صبا خود پریشان ہوگئی ہوگی (سیف الدین سیف)
  13. فرخ منظور

    گلزار اعتراف - گلزار

    اعتراف - گلزار مجھ کو بھی ترکیب سکھا کوئی یار جلاہے! اکثر تجھ کو دیکھا ہے کہ تانا بنتے جب کوئی تاگا ٹوٹ گیا یا ختم ہوا پھر سے باندھ کے اور سرا کوئی جوڑ کے اس میں آگے بننے لگتے ہو تیرے اس تانے میں لیکن اک بھی گانٹھ گرہ بُنتر کی کوئی دیکھ نہیں سکتا ہے میں نے تو اک بار بُنا تھا ایک...
  14. فرخ منظور

    گلزار مکمّل نظم - گلزار

    مکمّل نظم - گلزار نظم الجھی ہوئی ہے سینے میں شعر اٹکے ہوئے ہیں ہونٹوں پر لفظ کاغذ پہ بیٹھتے ہی نہیں اڑتے پھرے ہیں تتلیوں کی طرح کب سے بیٹھا ہوا ہوں میں جانم سادہ کاغذ پہ لکھ کے نام ترا بس ترا نام ہی مکمّل ہے اس سے بہتر بھی نظم کیا ہوگی!
  15. فرخ منظور

    آج کا شعر

    دیکھیں ہے کون کون، ضرورت نہیں رہی کوئے ستم میں سب کو خفا کر چکے ہیں ہم اب اپنا اختیار ہے چاہے جہاں چلیں رہبر سے اپنی راہ جدا کرچکے ہیں‌ ہم (فیض)
  16. فرخ منظور

    ادبی چور پکڑئیے !

    ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا ابھی تو یونس صاحب کے مزید جوہر بھی کھلیں گے -
  17. فرخ منظور

    فارسی شاعری خوبصورت فارسی اشعار مع اردو ترجمہ

    بہت شکریہ تصحیح کے لیے واقعی یہ ایسے ہی ہے - میں نے درست کر دیا ہے - آپ کی عظمت کو سلام :)
  18. فرخ منظور

    منظوم تراجم، فارسی غزلیات خسرو از حکیم شمس الاسلام ابدالی

    زمن چن دل ربودی، رفت جان نیز زمن چن دل ربودی، رفت جان نیز کہ در دل داشت شوقت این و آن نیز دل تو اڑا لیا تھا گئی جان بھی مزید پھر کر دیا ہے بے سروسامان بھی مزید ز یاقوت لبت ما را طمع ہا ست کزو زندہ اس جان دھم روان نیز یاقوت سے لبوں کی ہے خواہش کچھ اس طرح زندہ ہے خود بھی اور مری جان...
  19. فرخ منظور

    منظوم تراجم، فارسی غزلیات خسرو از حکیم شمس الاسلام ابدالی

    ای سرم را بخاک پات نیاز ای سرم را بخاک پات نیاز عاشقی را ز سر کنم آغاز خاکِ پا تیری میری خوئے نیاز عاشقی کا میں پھر کروں آغاز گفتی از من نہاں مکن رازت کی شنیدی کہ من نگفتم راز مجھ سے کہتے ہو راز ِدل نہ چھپا کب چھپایا ہے میں نے دل کا راز؟ یادم آید ز زلف او ای دل باز گوئی بما شب...
  20. فرخ منظور

    منظوم تراجم، فارسی غزلیات خسرو از حکیم شمس الاسلام ابدالی

    منم بخانہ تن اینجا و جاں بجای دگر منم بخانہ تن اینجا و جاں بجای دگر بدل توئی و سخن بر زباں بجای دگر ًمیں گھر میں مکیں ہوں پہ تن و جاں پہ گماں اور ہے دل میں بسا تو ہی مگر وردِ زباں اور ببوستاں روم از غم ولی چہ سود کہ ہست دلم بجای دگر بوستان بجای دگر گلشن میں بھی جاؤں تو مجھے فائدہ...
Top