یہ اصلاح نہیں ہے اور میں معذرت خواہ ہوں کہ اگر ان میں کسی کو کچھ وقوعے کی خوشبو آئی ہے، بس زیدی صاحب کے ساتھ برادرانہ تعلقات نے مجبور کر دیا اور خواہ مخواہ میری کوئی رگ پھڑک اٹھی حالانکہ میں نے تو اصلاحِ سخن والے سیکشن میں بھی کبھی لب کشائی کی جرات نہیں کی۔
تا دیر جو میرے ساتھ چمکا
وہ چاند تھا یا کوئی ستارہ
وہ ہالہ سا روشنی کا اکمل
تھا ربِّ جلیل نے اُتارا
وہ ایک دُعا تھی میری ماں کی
جس نے مری سوچ کو نکھارا
:)
تا شود قبرَش زیارت گاہِ اربابِ ریا
خویش را زاہد بزیرِ گنبدِ دستار کُشت
غنی کاشمیری
تا کہ اُس کی قبر ریا کار لوگوں کے لیے زیارت گاہ بن جائے، زاہد نے اپنے آپ کو (اپنی) دستار کے گنبد کے نیچے مار دیا۔
نگویم قحطِ درمان است در دہر
دوا بسیار امّا خاصیت نیست
طالب آملی
میں یہ نہیں کہتا کہ دنیا میں علاج معالجے اور دوا دارو کا قحط ہے، دوائیں تو بہت سی ہیں لیکن اِن میں خاصیت اور تاثیر ہی نہیں ہے۔
جی شاید وہ "لکڑی" کے بارے میں پوچھنا چاہ رہے ہیں، یعنی وہ "انسٹرومنٹ" جس سے آزار بند شلوار میں ڈالا جاتا ہے، پنجابی میں اس کا نام موجود ہے "ناڑا پانی" یا "نالا پانی"، اردو میں اللہ ہی جانتا ہے کیا کہتے ہیں :)
اس صورت میں تو "ز" مکمل گرانا پڑے گا، یعنی زیادہ کو "یادہ" باندھنا پڑے گا، یا ی کو گرا کر "زادہ" باندھنے سے مصرع موزوں ہوتا ہے اور ہر دو صورتیں بھی ٹھیک نہیں۔
جی درست فرمایا آپ نے، میں نے بھی گنجور ہی پر اسے شیخ سے منسوب دیکھا ہے ورنہ مدتوں سے تو خیام ہی کے نام سے مشہور ہے۔ اور میرا جی نے بھی خیام ہی کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔
میرا جی کے تراجم کا مسئلہ یہ ہے کہ انہوں نے براہِ راست فارسی کی بجائے، فارسی کے انگریزی ترجمے کا ترجمہ کیا ہے لیکن بہرحال اُس...
حسن دعائے تو گر مستجاب نیست مرنج
ترا زباں دگر و دل دگر، دعا چہ کند
خواجہ حسن سجزی دہلوی
حسن، اگر تیری دعا قبول نہیں ہوتی تو رنج نہ کر کیونکہ تیری زبان پر تو کچھ اور ہے اور دل میں کچھ اور ہے، اب ایسی صورت میں دعا کیا کرے؟
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، کہ مدت ہو گئی عربی کے قواعد دیکھے، عربی میں کچھ اسما ایسے ہیں کہ جو کبھی بھی جری حالت میں نہیں آتے، جیسے مُوسیٰ عیسیٰ وغیرہ، ہو سکتا ہے یہ فرعون بھی انہی اسما میں سے ہو۔
نیَم بہجرِ تو تنہا دو ہمنشیں دارم
دلِ شکستہ یکے، جانِ بیقرار یکے
شیخ علی حزیں لاھیجی
میں تیرے ہجر میں تنہا نہیں ہوں بلکہ میرے دو ہمنشیں بھی ہیں، ایک ٹُوٹا ہوا دل اور دوسرا بیقرار جان۔