ماہِ صیام آیا، ہے قصدِ اعتکاف اب
جا بیٹھیں میکدے میں مسجد سے اُٹھ کے صاف اب
مسلم ہیں رفتہ رُو کے کافر ہیں خستہ مو کے
یہ بیچ سے اُٹھے گا کس طور اختلاف اب
جو حرف ہیں سو ٹیڑھے خط میں لکھے ہیں شاید
اُس کے مزاج میں ہے کچھ ہم سے انحراف اب
مجرم ٹھہر گئے ہم پھرنے سے ساتھ تیرے
بہتر ہے جو...
یونہی افزائشِ وحشت کےجو ساماں ہوں گے
دل کے سب زخم بھی ہم شکلِ گریباں ہوں گے
وجہِ مایوسئ عاشق ہے تغافل ان کا
نہ کبھی قتل کریں گے، نہ پشیماں ہوں گے
دل سلامت ہے تو صدموں کی کمی کیا ہم کو
بے شک ان سے تو بہت جان کے خواہاں ہوں گے
منتشر ہو کے بھی دل جمع رکھیں گے یعنی
ہم بھی اب پیروئے گیسو ئے...
اچھی غزل ہے اور سنا ہے امجد اسلام امجد صاحب اپنے بعد سعود عثمانی کو ہی اچھی شاعر سمجھتے ہیں- ابھی کل ہی ان صاحب کا ذکر ہو رہا تھا - بہت شکریہ امید اور محبت!