چوں کسے را تابِ دیدارِ تو نیست
از جمالت اے مۂ تاباں چہ حظ
فیض کاشانی
جب کسی کو بھی تیرے دیدار کی تاب نہیں ہے تو پھر اے مۂ تاباں تیرے جمال سے کیا لطف و مسرت؟
"لاوارث" کو آپ نے سرخ بھی کر دیا اور فانٹ بھی بڑا کر دیا تا کہ کوئی بھی پہلو چُھپا نہ رہے، بچپن کے اسکول کے دن یاد آ گئے، جب یہ سن کر میں بھی اسی طرح لال پیلا ہوتا تھا۔ :)
ہر سال تازہ می شَوَد ایں دردِ سینہ سوز
سوزے کہ کم نگردد و دردے کہ بے دواست
اوحدی مراغہ ای
ہر سال یہ دردِ سینہ سوز تازہ ہو جاتا ہے، سوز کہ جو کم ہی نہیں ہوتا اور درد کہ جس کی کوئی دوا ہی نہیں ہے۔
(یکم محرم الحرام 1439ھ)