غزل
یار کو میں نے مجھے یار نے سونے نہ دیا
رات بھر طالعِ بیدار نے سونے نہ دیا
خاک پر سنگِ درِ یار نے سونے نہ دیا
دھوپ میں سایۂ دیوار نے سونے نہ دیا
شام سے وصل کی شب آنکھ نہ جھپکی تا صبح
شادئ دولتِ دیدار نے سونے نہ دیا
ایک شب بلبلِ بے تاب کے جاگے نہ نصیب
پہلوئے گُل میں کبھی خار نے سونے نہ دیا...