کالم تو اچھا ہے لیکن میں اس میں حسنِ ظن ڈھونڈتا رہ گیا ہوں، تھوڑا ساسوءِ ظن تو ملا لیکن حسنِ ظن ندارد۔:) ۔۔۔ کہیں آپ حسنِ زن کی بات تو نہیں کررہے تھے;)
ایک عربی فورم پر ڈاکٹر مصطفیٰ اکّاد کی ایک آزاد نظم پڑھی۔ سوچا اسکا نثری ترجمہ کرکے آپکے ساتھ شئیر کیا جائے:
میری ماں نے ہمیشہ حقیقت بیان کی ہو، ایسا بھی نہیں
آٹھ مرتبہ تو اس نے مجھ سے ضرور جھوٹ بولا۔ ۔ ۔ ۔۔
یہ قصہ مری ولادت سے شروع ہوتا ہے
میں اکلوتا بیٹا تھا اور غربت بہت تھی
اتنا کھانا...
مجھے بھی آفر ہوئی تھی 50 ہزار روپے میں بی-ٹیک آنرز کی ڈگری کی۔ ۔ ۔ ۔اب اس یونیورسٹی کا بوریہ گول ہوچکا ہے۔ ۔۔
وہ جو بیچتے تھے دوائے دل
وہ دکان اپنی بڑھا گئے۔ ۔ ۔
وہي ميري کم نصيبي ، وہي تيري بے نيازي
ميرے کام کچھ نہ آيا يہ کمال نے نوازي
ميں کہاں ہوں تو کہاں ہے ، يہ مکاں کہ لامکاں ہے؟
يہ جہاں مرا جہاں ہے کہ تري کرشمہ سازي
اسي کشمکش ميں گزريں مري زندگي کي راتيں
کبھي سوزو ساز رومي ، کبھي پيچ و تاب رازي
وہ فريب خوردہ شاہيں کہ پلا ہو کرگسوں ميں...
تھوڑا سا لفظی تغیر کیا ہے اگر ناگوارِ خاطر نہ ہو تو:
جن کی آنکھیں ہیں پیار کے ساگر
انکو وہ بے حساب دیتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
زندگی بھر نہ بھول پائیں جو
پیار ایسے بھی خواب دیتا ہے
مغل صاحب بھی اس محفل میں یارو پائے جاتے ہیں
سخن فہمی سے جنکی ہم بہت گھبرائے جاتے ہیں
وہ سارے عیب گنوادیں گے اک اک کرکے محفل میں
کہو اصلاح کی ان سے تو پھر کترائے جاتے ہیں:);)
بابا جی کن کو سنارہے ہیں؟ بادشاہو یہاں تو خدا واسطے کا بیر کیا جاسکتا ہے۔ ۔ ۔دل جلانے کی بات کرتے ہو۔۔
اقبال یہاں نام نہ لے علمِ خودی کا۔ ۔۔
موزوں نہیں مکتب کیلئے ایسے مقالات
بہتر ہے کہ بیچارے ممولوں کی نظر سے
پوشیدہ رہیں باز کے احوال و مقامات:)