آپ نے نہ جانے کیا لکھا تھا عباس صاحب، چلیں میں ہی بتا دیتا ہوں:
1۔ خود غرضی (بقول میری بیوی کے)
2- سرد مہری (اپنے انتہائی قریب لوگوں کے ساتھ)
3- لا پرواہی (اپنی ذات کے ساتھ)
ڈاکٹر پرویز ناتل خانلزئی کی 1949ء میں ایک کتاب چھپی تھی، "تحقیق انتقادی در عروض و قافیه و چگونگی تحول اوزان غزل فارسی" اس میں بھی یہی نظام ہے۔ اس کتاب کا اردو میں ترجمہ بذل حق محمود نے "فارسی عروض کی تنقیدی تحقیق اور اوزانِ غزل کے ارتقاء کا جائزہ" کے نام سے کیا تھا اور میرے پاس موجود ہے!
خاکِ آدم کہ سرشتند غرض عشقِ تو بُود
ہر کہ خاکِ رہِ عشقِ تو نشد، آدم نیست
ہلالی چغتائی
خاکِ آدم کہ جس کو اُنہوں (کارکنانِ قضا و قدر) نے گوندھا اور خمیر کیا، اُس سے غرض تیرا عشق تھا، لہذا ہر وہ کہ جو تیرے عشق کی راہ کی خاک نہ ہوا، وہ آدم ہی نہیں ہے۔