آپ کو سمجھنے میں شکیب صاحب کا قصور نہیں ہے، میں بھی وہی سمجھتا رہا جو وہ سمجھے کیونکہ آپ نے ترجمے ہی اتنے جانبدارانہ کیے تھے (اپنے سیاسی چٹکلوں کی طرح) کہ کوئی بھی دھوکا کھا سکتا تھا! :)
مجھے جتنے لوگ جانتے ہیں وہ تو میرے بارے میں یہی رائے رکھتے ہیں جو میں نے اپنے بارے میں دی۔
ویسے مجھے جاننے والے زیادہ لوگ نہیں ہیں، اردو محفل، قریبی فیملی کے لوگ ہیں، کچھ کولیگ اور ایک آدھ دوست جن سے ملے بھی سالو ں گذر گئے۔ :)
1987ء میں انڈیا پاکستان میں جو کرکٹ ورلڈ کپ ہوا تھا اس کا آفیشل نام "ریلائنس کپ" تھا۔ کہنے کا مقصد ہے کہ اتنا عرصہ قبل بھی یہ گروپ اچھا خاصا اسٹیبلش ہو چکا تھا، مکیش امبانی صاحب تو اس وقت کافی نوجوان ہونگے۔
یہ نیچےکا تبصرہ ایک دن محمد تابش صدیقی صاحب نے پوسٹ کیا تھا، بالکل درست تجزیہ ہے اس میں:
عام ناول:
لڑکے نے لڑکی کا ہاتھ پکڑا اور دونوں ساحل پر چہل قدمی کرنے لگے۔
عمیرہ احمد کے ناول:
لڑکے نے فجر کے وضو میں دھوئے ہوئے ہاتھوں سے ماہِ مبارک میں چھٹکتی چاندنی جیسی دودھیا رنگت کی حامل لڑکی کا سیاہ...
اے کیمیا اے کیمیا، در من نگر زیں را کہ من
صد دیر را مسجد کنم، صد دار را منبر کنم
مولانا رُومی
اے کیمیا گر، اے عناصر میں تغیرات کا مطالعہ کرنے والے، میری طرف دیکھ (اور غور کر کہ میں کیسے اور کس طرح عناصر میں تغیرات کرتا ہوں) کہ میں سینکڑوں بُتخانوں کو مسجد بنا دیتا ہوں اور سینکڑوں داروں کو منبر۔
جی کچھ ایسا ہی احمد صاحب، یہ عید کے ساتھ ساتھ فیکٹری میں پروڈکشن بریک ہوتی ہے۔ ہفتے کے شروع میں عید آ جائے تو ہماری چھٹیاں پانچ چھ رہ جاتی ہیں، ہفتے کے آخر میں آ جائے تو آٹھ نو دس تک ہو جاتی ہیں۔ :)