آئینہ گر کے دُکھ
پتھرہی رہو ، شیشہ نہ بنو
شیشوں کی ابھی رُت آئی نہیں
اِس شہرمیں خالی چہروں پر
آنکھیں تو اُبھرآئی ہیں مگر
آنکھوں میں ابھی بینائی نہیں
خاموش رہو ، آواز نہ دو
کانوں میں سماعت سوتی ہے
سوچوں کو ابھی الفاظ نہ دو
احساس کو زحمت ہوتی ہے
اظہارِ حقیقت کے لہجے
سننےکا ابھی دستور نہیں...