نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    منظر رہ گزر ، سائے شجر ، منزل و در، حلقۂ بام بام پر سینۂ مہتاب کھُلا، آہستہ جس طرح کھولے کوئی بندِ قبا، آہستہ حلقۂ بام تلے ،سایوں کا ٹھہرا ہُوا نیل نِیل کی جِھیل جِھیل میں چُپکے سے تَیرا، کسی پتّے کا حباب ایک پل تیرا، چلا، پُھوٹ گیا، آہستہ بہت آہستہ، بہت ہلکا، خنک رنگِ شراب...
  2. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    شرحِ فراق ، مدحِ لبِ مشکبو کریں غربت کدے میں کس سے تری گفتگو کریں یار آشنا نہیں کوئی ، ٹکرائیں کس سے جام کس دل رُبا کے نام پہ خالی سَبُو کریں سینے پہ ہاتھ ہے ، نہ نظر کو تلاشِ بام دل ساتھ دے تو آج غمِ آرزو کریں کب تک سنے گی رات ، کہاں تک سنائیں ہم شکوے گِلے سب آج ترے رُو بُرو کریں...
  3. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    ہر سَمت پریشاں تری آمد کے قرینے دھوکے دئیے کیا کیا ہمیں بادِ سحری نے ہر منزلِ غربت پہ گماں ہوتا ہے گھر کا بہلایا ہے ہر گام بہت در بدری نے تھے بزم میں سب دودِ سرِ بزم سے شاداں بیکار جلایا ہمیں روشن نظری نے مَے خانے میں عاجز ہُوئے آزُردہ دِلی سے مسجد کا نہ رکھا ہمیں آشفتہ سری نے یہ...
  4. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    تری اُمید ترا انتظار جب سے ہے نہ شب کو دن سے شکایت ، نہ دن کو شب سے ہے کسی کا درد ہو کرتے ہیں تیرے نام رقم گِلہ ہے جو بھی کسی سے ترے سبب سے ہے ہُوا ہے جب سے دلِ ناصبُور بے قابو کلام تجھ سے نظر کو بڑے ادب سے ہے اگر شررِ ہے تو بھڑکے ، جو پھول ہے تو کِھلے طرح طرح کی طلب ، تیرے رنگِ لب...
  5. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    پاس رہو تم مرے پا س رہو میرے قاتل ، مرے دِلدار،مرے پاس رہو جس گھڑی رات چلے، آسمانوں کا لہو پی کے سیہ رات چلے مرہمِ مُشک لئے، نشترِالماس لئے بَین کرتی ہوئی، ہنستی ہُوئی ، گاتی نکلے درد کے کاسنی پازیب بجاتی نکلے جس گھڑی سینوں میں ڈُوبے ہُوئے دل آستینوں میں نہاں ہاتھوں کی رہ...
  6. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    رنگ ہے دل کا مرے تم نہ آئے تھے تو ہر چیز وہی تھی کہ جو ہے آسماں حدِّ نظر ، راہگزر راہگزر، شیشہ مَے شیشہ مے اور اب شیشہ مَے ،راہگزر، رنگِ فلک رنگ ہے دل کا مرے ،’’خون جگر ہونے تک‘‘ چمپئی رنگ کبھی راحتِ دیدار کا رنگ سرمئی رنگ کہ ہے ساعتِ بیزار کا رنگ زرد پتّوں کا ،خس وخار کا رنگ...
  7. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    جب تیری سمندر آنکھوں میں (گیت) یہ دُھوپ کنارا، شام ڈھلے مِلتے ہیں دونوں وقت جہاں جو رات نہ دن ، جو آج نہ کل پل بھر کو امر ،پل بھر میں دھواں اِس دھوپ کنارے، پل دو پل ہونٹوں کی لپک باہوں کی چھنک یہ میل ہمارا ، جھوٹ نہ سچ کیوں زار کرو، کیوں دوش دھرو کس کارن، جھوٹی بات کرو...
  8. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    خوشا ضمانتِ غم دیارِ یار تری جوششِ جنوں پہ سلام مرے وطن ترے دامانِ تار تار کی خیر رہِ یقین افشانِ خاک و خوں پہ سلام مرے چمن ترے زخموں کے لالہ زار کی خیر ہر ایک خانۂ ویراں کی تیرگی پہ سلام ہر ایک خاک بسر، خانماں خراب کی خیر ہر ایک کشتۂ ناحق کی خامشی پہ سلام ہر ایک دیدۂ پُرنم کی آب و تاب...
  9. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    نہ گنواؤ ناوکِ نیم کش، دلِ ریزہ ریزہ گنوادیا جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو، تنِ داغ داغ لُٹادیا مرے چارہ گر کو نوید ہو، صفِ دُشمناں کو خبر کرو جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر، وہ حساب آج چُکا دیا کرو کج جبیں پہ سرِ کفن، مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو کہ غرورِ عشق کا بانکپن، پسِ مرگ ہم نے بھلادیا...
  10. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    شہرِ یاراں آسماں کی گود میں دم توڑتا ہے طفل ابر جم رہا ہے ابر کے ہونٹوں پہ خوں آلود کف بُجھتے بُجھتے بُجھ گئی ہے عرش کے حُجروں میں آگ دھیرے دھیرے بِچھ رہی ہے ماتمی تاروں کی صف اے صبا شاید ترے ہمراہ یہ خونناک شام سر جھکائے جارہی ہے شہرِ یاراں کی طرف شہر یاراں جس میں اِس دم...
  11. فرخ منظور

    منیر نیازی زندگی ۔ منیر نیازی

    بہت عمدہ انتخاب ہے شامی صاحب۔ بہت شکریہ!
  12. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    یک بیک شورشِ فغاں کی طرح فصلِ گُل آئی امتحاں کی طرح صحنِ گلشن میں بہرِ مشتاقاں ہر روش کِھنچ گئی کماں کی طرح پھر لہو سے ہر ایک کاسۂ داغ پُر ہُوا جامِ ارغواں کی طرح یاد آیا جنُونِ گُم گشتہ بے طلب قرضِ دوستاں کی طرح جانے کس پر ہو مہرباں قاتِل بے سبب مرگِ ناگہاں کی طرح ہر صدا پر...
  13. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    کہاں جاؤ گے اور کچھ دیر میں لُٹ جائے گا ہر بام پہ چاند عکس کھو جائیں گے آئینے ترس جائیں گے عرش کے دیدۂ نمناک سے باری باری سب ستارے سرِ خاشاک برس جائیں گے آس کے مارے تھکے ہارے شبستانوں میں اپنی تنہائی سمیٹے گا ، بچھائے گا کوئی بے وفائی کی گھڑی ، ترکِ مدارات کا وقت اس گھڑی اپنے سوا یاد...
  14. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    آج یوں موج در موج غم تھم گیا، اس طرح غم زدوں کو قرار آگیا جیسے خوشبوئے زلفِ بہار آگئی، جیسے پیغامِ دیدارِ یار آگیا جس کی دید و طلب وہم سمجھے تھے ہم، رُو بُرو پھر سرِ رہگزار آگیا صبحِ فردا کو پھر دل ترسنے لگا ، عمرِ رفتہ ترا اعتبار آگیا رُت بدلنے لگی رنگِ دل دیکھنا ، رنگِ گلشن سے اب حال...
  15. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    ان دنوں رسم و رہِ شہرِ نگاراں کیا ہے قاصدا ، قیمتِ گلگشتِ بہاراں کیا ہے کُوئے جاناں ہے کہ مقتل ہے کہ میخانہ ہے آج کل صورتِ بربادیِ یاراں کیا ہے
  16. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    (۲) ختم ہوئی بارشِ سنگ ناگہاں آج مرے تارِ نظر سے کٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوئے آفاق پہ خورشید و قمر اب کسی سَمت اندھیرا نہ اُجالا ہوگا بُجھ گئی دل کی طرح راہِ وفا میرے بعد دوستو! قافلۂ درد کا اب کیا ہوگا اب کوئی اور کرے پرورشِ گلشنِ غم دوستو ختم ہوئی دیدۂ تر کی شبنم تھم گیا شورِ جنوں...
  17. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    دو مرثیے (۱) ملاقات مری ساری دیوار سیہ ہوگئی تا حلقۂ دام راستے بجھ گئے رُخصت ہُوئے رہ گیر تمام اپنی تنہائی سے گویا ہوئی پھر رات مری ہو نہ ہو آج پھر آئی ہے ملاقات مری اک ہتھیلی پہ حِنا ، ایک ہتھیلی پہ لُہو اک نظر زہر لئے ایک نظر میں دارو دیر سے منزلِ دل میں کوئی آیا نہ گیا...
  18. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    کب ٹھہرے گا درد اے دل ، کب رات بسر ہوگی سنتے تھے وہ آئیں گے ، سنتے تھے سحر ہوگی کب جان لہو ہوگی ، کب اشک گہر ہوگا کس دن تری شنوائی اے دیدۂ تر ہوگی کب مہکے گی فصلِ گل ، کب بہکے گا میخانہ کب صبحِ سخن ہوگی ، کب شامِ نظر ہوگی واعظ ہے نہ زاہد ہے ، ناصح ہے نہ قاتل ہے اب شہر میں یاروں کی...
  19. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    ڈھلتی ہے موجِ مَے کی طرح رات ان دِنوں کِھلتی ہے صبح گل کی طرح رنگ و بُو سے پُر ویراں ہیں جام پاس کرو کچھ بہار کا دل آرزو سے پُر کرو، آنکھیں لُہو سے پُر
Top