نتائج تلاش

  1. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    آگئی فصلِ سکُوں چاک گریباں والو سِل گئے ہونٹ ، کوئی زخم سِلے یا نہ سِلے دوستوں بزم سجاؤ کہ بہار آئی ہے کِھل گئے زخم ، کوئی پھول کِھلے یا نہ کِھلے اپریل 1962
  2. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    ترے غم کو جاں کی تلاش تھی ترے جاں نثار چلے گئے تری رہ میں کرتے تھے سر طلب ، سرِ رہگزار چلے گئے تری کج ادائی سے ہار کے شبِ انتظار چلی گئی مرے ضبطِ حال سے رُوٹھ کر مرے غم گسار چلے گئے نہ سوالِ وصل ، نہ عرضِ غم ، نہ حکایتیں نہ شکایتیں ترے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے یہ ہمیں...
  3. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    زندگی ملکۂ شہرِ زندگی تیرا شُکر کسِ طور سے ادا کیجے دولتِ دل کا کچھ شمار نہیں تنگ دستی کا کیا گلہ کیجے جو ترے حُسن کے فقیر ہوئے ان کو تشویشِ روزگار کہاں؟ درد بیچیں گے گیت گائیں گے اِس سے خوش وقت کاروبارکہاں؟ جام چھلکا توجم گئی محفل مِنّت لُطفِ غم گسار کسے؟ اشک...
  4. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو جو عُمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں دامن میں ہے مشتِ خاکِ جِگر ، ساغر میں ہے خونِ حسرتِ مَے لو ہم نے دامن جھاڑ دیا ، لو جام اُلٹائے دیتے ہیں قلعہ لاہور مارچ 1959
  5. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    قیدِ تنہائی دُور آفاق پہ لہرائی کوئی نُور کی لہر خواب ہی خواب میں بیدار ہُوا درد کا شہر خواب ہی خواب میں بیتاب نظر ہونے لگی عدم آبادِ جُدائی میں سحر ہونے لگی کاسۂ دل میں بھری اپنی صبُوحی میں نے گھول کر تلخی دیروز میں اِمروز کا زہر دُور آفاق پہ لہرائی کوئی نُور کی لہر آنکھ سے...
  6. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    یہ جفائے غم کا چارہ ، وہ نَجات دل کا عالم ترا حُسن دستِ عیسیٰ ، تری یاد رُوئے مریم دل و جاں فدائے راہے کبھی آکے دیکھ ہمدم سرِ کوئے دل فگاراں شبِ آرزو کا عالم تری دِید سے سوا ہے ترے شوق میں بہاراں وہ چمن جہاں گِری ہے ترے گیسوؤں کی شبنم یہ عجب قیامتیں ہیں تری رہگزر میں گزراں نہ ہُوا...
  7. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    آج بازار میں پابجولاں چلو چشمِ نم ، جانِ شوریدہ کافی نہیں تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں آج بازار میں پابجولاں چلو دست افشاں چلو ، مست و رقصاں چلو خاک بر سر چلو ، خوں بداماں چلو راہ تکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو حاکم شہر بھی ، مجمعِ عام بھی تیرِ الزام بھی ، سنگِ دشنام بھی صبحِ ناشاد...
  8. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    شورشِ زنجیر بسم اللہ ہُوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ ہر اک جانب مچا کہرامِ دار و گیر بسم اللہ گلی کوچوں میں بکھری شورشِ زنجیر بسم اللہ درِ زنداں پہ بُلوائے گئے پھر سے جُنوں والے دریدہ دامنوں والے ،پریشاں گیسوؤں والے جہاں میں دردِ دل کی پھر ہوئی توقیر بسم اللہ ہوئی پھر امتحانِ...
  9. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    بے دم ہوئے بیمار دوا کیوں نہیں دیتے تم اچھے مسیحا ہو شِفا کیوں نہیں دیتے دردِ شبِ ہجراں کی جزا کیوں نہیں دیتے خونِ دلِ وحشی کا صِلا کیوں نہیں دیتے مِٹ جائے گی مُخلوق تو انصاف کرو گے منصف ہو تو اب حشر اُٹھا کیوں نہیں دیتے ہاں نکتہ ورو لاؤ لب و دل کی گواہی ہاں نغمہ گرو ساز صدا...
  10. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    نہ دید ہے نہ سخن ، اب نہ حرف ہے نہ پیام کوئی بھی حیلۂ تسکیں نہیں اور آس بہت ہے اُمیدِ یار ، نظر کا مزاج ، درد کا رنگ تم آج کچھ بھی نہ پُوچھو کہ دل اُداس بہت ہے
  11. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    تم یہ کہتے ہو اب کوئی چارہ نہیں! تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چکی! جس میں رکھا نہیں ہے کسی نے قدم کوئی اترا نہ میداں میں ، دشمن نہ ہم کوئی صف بن نہ پائی ، نہ کوئی علم منتشرِ دوستوں کو صدا دے سکا اجنبی دُشمنوں کا پتا دے سکا تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چُکی! جس میں رکھا...
  12. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    جمے گی کیسے بساطِ یاراں کہ شیشہ و جام بُجھ گئے ہیں سجے گی کیسے شبِ نگاراں کہ دل سر شام بُجھ گئے ہیں وہ تیرگی ہے رہِ بُتاں میں چراغِ رُخ ہے نہ شمعِ وعدہ کرن کوئی آرزو کی لاؤ کہ سب در و بام بُجھ گئے ہیں بہت سنبھالا وفا کا پیماں مگر وہ برسی ہے اب کے برکھا ہر ایک اقرار مٹ گیا ہے...
  13. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    شام اس طرح ہے کہ ہر اِک پیڑ کوئی مندر ہے کوئی اُجڑا ہوا ، بے نُور پُرانا مندر ڈھونڈتا ہے جو خرابی کے بہانے کب سے چاک ہر بام ، ہر اک در کا دمِ آخر ہے آسماں کوئی پروہت ہے جو ہر بام تلے جسم پر راکھ ملے ، ماتھے پہ سیندور ملے سرنگوں بیٹھا ہے چپ چاپ نہ جانے کب سے اس طرح...
  14. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    رات ڈھلنے لگی ہے سینوں میں آگ سُلگاؤ آبگینوں میں دلِ عُشاق کی خبر لینا پھول کِھلتے ہیں ان مہینوں میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج تنہائی کسی ہمدمِ دیریں کی طرح کرنے آئی ہے مری ساقی گری شام ڈھلے منتظر بیٹھے ہیں ہم دونوں کہ مہتاب اُبھرے اور ترا عکس جھلکنے لگے ہر سائے تلے
  15. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    جشن کا دن جنُوں کی یاد مناؤ کہ جشن کا دن ہے صلیب و دار سجاؤ کہ جشن کا دن ہے طرب کی بزم ہے بدلو دِلوں کے پیراہن جگر کے چاک سِلاؤ کہ جشن کا دن ہے تنک مزاج ہے ساقی نہ رنگِ مَے دیکھو بھرے جو شیشہ ، چڑھاؤ کہ جشن کا دن ہے تمیزِ رہبر و رہزن کرو نہ آج کے دن ہر اک سے ہاتھ ملاؤ کہ جشن کا...
  16. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    بساطِ رقص پہ صد شرق و غرب سے سرِ شام دمک رہا ہے تری دوستی کا ماہِ تمام چھلک رہی ہے ترے حُسنِ مہرباں کی شراب بھرا ہوا ہے لبالب ہر اِک نگاہ کا جام گلے میں تنگ ترے حرفِ لطف کی راہیں پسِ خیال کہیں ساعتِ سفر کا پیام ابھی سے یاد میں ڈھلنے لگی ہے صُحبتِ شب ہر ایک روئے حسیں ہوچلا ہے بیش...
  17. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    سِنکیانگ اب کوئی طبل بجے گا ، نہ کوئی شاہسوار صبحدم موت کی وادی کو روانہ ہوگا! اب کوئی جنگ نہ ہوگی نہ کبھی رات گئے خون کی آگ کو اشکوں سے بُجھانا ہوگا کوئی دل دھڑکے گا شب بھر نہ کسی آنگن میں وہم منحوس پرندے کی طرح آئے گا سہم ، خونخوار درندے کی طرح آئے گا اب کوئی جنگ نہ ہوگی مے و...
  18. فرخ منظور

    دستِ تہِ سنگ ۔ فیض احمد فیض

    پیکنگ یوں گماں ہوتا ہے بازو ہیں مرے ساٹھ کروڑ اور آفاق کی حد تک مرے تن کی حد ہے دل مرا کوہ و دمن دشت و چمن کی حد ہے میرے کیسے میں ہے راتوں کا سیہ فام جلال میرے ہاتھوں میں ہے صبحوں کی عنانِ گلگوں میری آغوش میں پلتی ہے خدائی ساری میرے مقدور میں ہے معجزۂ کُن فَیَکُوں
Top