وہ کرینہ ، وہ کرشمہ، وہ ایشوریا ہو کہ مادوری
نہ شک کر دیکھ کر بٹوے میں میرے ان کی تصویریں
میں فقط اس نیت سے ان کو دیکھتا ہوں بیگم
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
شاعر : سلمان گیلانی
غزل میں شاید دو اشعار کم ہیں۔
مکمل غزل کچھ اس طرح ہے
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں، ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم، اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
اے درد پتا کچھ تُو ہی بتا! اب تک یہ معمّا حل نہ ہوا
ہم میں ہے دلِ بےتاب نہاں یا آپ دلِ بےتاب ہیں ہم
میں حیرت و حسرت کا مارا، خاموش...
شیفتہ ہجر میں تو نالہء شب گیر نہ کھینچ
صبح ہونے کی نہیں خجلتِ تاثیر نہ کھینچ
اے ستم گر رگِ جاں میں ہے مری پیوستہ
دم نکل جائے گا سینے سے مرے تیر نہ کھینچ
حور پر بھی کوئی کرتا ہے عمل دنیا میں
رنجِ بے ہودہ بس اے عاملِ تسخیر نہ کھینچ
عشق سے کیا ہے تجھے شکل تری کہتی ہے
حسنِ تقریر کو آہیں دمِ تقریر...
بُوبکر کا حُسن صدق بیاں ، عدلِ عمر آئینِ قرآں
عثمان غنی میں رنگِ حیا ، حیدر کی سخا سبحان الله
کہنے کو تو نعتیں سب نے کہیں، یہ نعت نصیر آفاقی ہے
" کهتے مہر علی کهتے تیری ثنا" کیا خوب کہا ، سبحان الله
بھائی جی
الجھا ہے پاؤں یار کا زلفِ دراز میں
ویسے بھی
بقولِ فراز
ہم نے جس جس کو بھی چاہا ترے ہجراں میں وہ لوگ
آتے جاتے ہوئے موسم تھے زمانہ تُو تھا
جو بھی ہو، میری تو یہی دعا ہے کہ قیصرانی انکل جہاں بھی رہیں، جس حال میں بھی رہیں، ہمیشہ خوش اور مطمئن رہیں۔:)
یہ آپ غیر جمہوری اور غیر پارلیمانی گفتگو کر رہے ہیں:D اور اُس پہ بھی بس نہیں تو بات کو گھما رہے ہیں، بالکل ایسے جیسے نیوٹن ہمیں گھماتا ہے۔
اب مجھے یہ بتائیے کہ آپ نے پہلا مراسلہ کب لکھا تھا، کیوں لکھا تھا، کدھر لکھا تھا اور کیا لکھا تھا؟