کبھی کبھی یاد میں اُبھرتے ہیں نقشِ ماضی مٹے مٹے سے
وہ آزمائش دل و نظر کی، وہ قُربتیں سی، وہ فاصلے سے
کبھی کبھی آرزو کے صحرا میں، آ کے رُکتے ہیں قافلے سے
وہ ساری باتیں لگاؤ کی سی، وہ سارے عُنواں وصال کے سے
نگاہ و دل کو قرار کیسا، نشاط و غم میں کمی کہاں کی
وہ جب ملے ہیں تو اُن سے ہر بار، کی ہے...