حرف تازہ نئی خوشبو میں لکھا چاہتا ہے
باب اک اور محبت کا کھلا چاہتا ہے
اک حجاب تہہ اقرار ہے مانع ورنہ
گل کو معلوم ہے کیا دست صبا چاہتا ہے
یہی خاموشی کئی رنگ میں ظاہر ہو گی
اور کچھ روز کہ وہ شوخ کھلا چاہتا ہے
پروین جی ۔۔۔
ہے یہاں کس کو دماغ انجمن آرائی کا
اپنے رہنے کو مکاں چاہئیے تنہائی کا
شیشہ دل کو مرے چور کیا کیوں اس نے؟
کیا بگاڑا تھا بھلا گبند مینائی کا؟
بھیج دیتا ہے خیال اپنا عوض اپنے مدام
کس قدر یار کو غم ہے میری تنہائی کا!
الفاظ تھے کہ جگنو آواز کے سفر میں
بن جائے جنگلوں میں جس طرح راستہ سا
خوابوں میں خواب اس کے یادوں میں یاد اس کی
نیندوں میں گھل گیا ہو جیسے کہ رتجگا سا
راستہ