یہ بھی وہی مسئلہ ہے جو 'نہ' اور 'نے' کا ہے۔ ویسے تو اصل فارسی لفظ "کاشکے" یا "کاشکہِ" کا مطلب ہے "ایسا ہو جاتا"، لیکن ہمارے ہاں یہ "کاش کہ" کے معنوں ہی میں استعمال ہوتا ہے یا صرف "کاش" کے معنوں میں۔ نیچے فارسی اردو لغت اور فرہنگِ آصفیہ کے عکس ہیں۔ فرہنگِ آصفیہ نے تو صاف لکھ دیا ہے کہ "دیکھو...
میں بھی بچپن میں 'سقراط'، 'بقراط'، 'افلاطون'، 'ارسطو' وغیرہ کو مسلمان ہی سمجھتا تھا۔ جب ان کا کام عربی میں ترجمہ ہوا تو ان کے نام بھی ساتھ میں عربی میں آ گئے، اسی طرح اوپر دیئے گئے مسلمان مفکروں کے نام بھی لاطینی زبان میں ترجمہ ہو گئے!
اردو محفل ہی پر ایک مضمون میں یہ رباعی مع ترجمہ ملی ہے:
خیام ---- ایک مطالعہ (انور مسعود)
آں قصر کہ بر چرخ ہمی زد پہلو
بر در گہِ او شہان نہادندے رو
دیدیم کہ بر کنگرہ اش فاختہ اے
بنشستہ ہمی گفت کہ کو کو، کو کو
(وہ قصرِ شاہی جو اپنی رفعت کے اعتبار سے رشکِ فلک تھا۔ جس کے دربار میں بڑے بڑے سلاطین...
بہ یک کرشمۂ چشمِ فسونگرِ تو شود
یکے ہلاک، یکے زندہ، ایں چہ بوالعجبیست
ہاتف اصفہانی
تیری فسوں گر، جادو بھری آنکھوں کے ایک ہی کرشمے سے، کوئی ہلاک ہو جاتا ہے اور کوئی زندہ ہو جاتا ہے، یہ کیا بوالعجبی ہے؟ یہ کیسا عجیب و غریب معاملہ ہے؟