ہوں گے آغوش میں وہ اور خُمِ صہبا ہو گا
میرا گھر وصل کی شب خُلد کا نقشہ ہو گا
تو نے کھائی تو قسم ضبطِ محبت کی مگر
وہ کہیں بزم میں آ جائیں تو پھر کیا ہو گا
مضطرب ہو کے جو اٹھتا ہے تری رہ کا غبار
کوئی بے تاب تہِ خاک تڑپتا ہو گا
حسنِ گلزار ہے تحسینِ نگہ کا محتاج
آپ جس پھول کو توڑیں وہی رعنا ہو...
یارانِ رفتہ آہ بہت دور جا بسے
دل ہم سے رک گیا تھا انہوں کا جدا بسے
کوچے میں تیرے ہاتھ ہزاروں بلند ہیں
ایسے کہاں سے آ کے یہ اہلِ دعا بسے
کرتا ہے کوئی زیبِ تن اپنا وہ رشکِ گُل
پھولوں میں جب تلک کہ نہ اس کی قبا بسے
بلبل کہے ہے جاؤں ہوں، کیا کام ہے مرا
میں کون، اس چمن میں نسیم و صبا بسے
جنگل...
طارق صاحب، فارسی مجھے نہیں آتی ۔ لیکن اردو میں بستگی سے مراد کسی چیز کا بند ہونا ہوتا ہے۔ اور اگر یہ لفظ دل کے ساتھ آئے یعنی دل بستگی تو اس کا مطلب تفریح ہوتا ہے۔ حوالے کے لئے دیکھیے نور اللغات کا یہ لنک۔
http://archive.org/stream/nrullught01nayy#page/603/mode/2up
بہت عمدہ غزل ہے۔ شریکِ بزم کرنے کا شکریہ طارق صاحب۔ لیکن یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ یہاں "بستگی" آپ نے کس مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ ہو سکے تو مجھ کم علم کے علم میں اضافہ فرما دیں۔
جو چلن چلتے ہو تم کیا اُس سے حاصل ہوئے گا
خوں سے بہتوں کے غبار اس راہ کا گُل ہوئے گا
کیوں نہ کہتے تھے دلا شیریں لبوں کے منہ نہ لگ
ایک دن تجھ کو یہ شربت زہرِ قاتل ہوئے گا
چاک پر تیرے جو اب پھرتا ہے کوزہ اے کلال
یہ کبھو ہم سے کسی سرگشتہ کا دل ہوئے گا
شرح اپنی بے قراری کی لکھیں گے ہم اگر
نامہ...