کچھ ایسے سُبک سر ہوئے ہم اہلِ مُسافت
منزل کے لئے خواہشِ جادہ نہیں رکھتے
کچھ لغزشیں قدموں سے نکلتی نہیں ورنہ
بےوجہ طرف دارئ بادہ نہیں رکھتے
واہ! کیا خوبصورت غزل ہے۔ تمام اشعار ہی لاجواب ہیں۔ مگر یہ دو اشعار تو لاجواب ہیں۔ شکریہ شیزان صاحب!
کیا کہیے کیا رکھے ہیں ہم تجھ سے یار خواہش
یک جان و صد تمنّا، یک دل ہزار خواہش
لے ہاتھ میں قفس ٹک، صیّاد چل چمن تک
مدّت سے ہے ہمیں بھی سیرِ بہار خواہش
نَے کچھ گنہ ہے دل کا نےَ جرمِ چشم اس میں
رکھتی ہے ہم کو اتنا بے اختیار خواہش
حالآنکہ عمر ساری مایوس گزری تس پر
کیا کیا رکھیں ہیں اس کے...
ان دو اشعار میں ردیف بدل گیا حسان میاں۔ انہیں درست کر دیں۔
ابوتراب کے در کا ہے ذرۂ بے قدر
ہم آسماں پہ جسے آفتاب کہتے ہیں
ارے نہ آئیو دنیائے دوں کے دھوکے میں
سراب ہے یہ جسے موجِ آب کہتے ہیں
طاہر القادری صاحب کو اسی لیے تو کینیڈا سے امپورٹ کیا گیا ہے کہ عمران خان سے جو توقعات تھی وہ پوری نہیں ہوئیں۔ عمران خان عقلمندی اور سیاسی فہم و فراست کا وہ مظاہرہ نہیں کر سکے جس کی ان سے توقع کی جا رہی تھی۔ اس لیے نگران سیٹ اپ کی equation میرے خیال میں یوں ہو گی۔
طاہر القادری+ایم کیو ایم+عمران...
محمد خلیل الرحمٰن کی آج کی ایک پوسٹ۔
غزل
طاہر القادری اب دیکھئے کیا کہتے ہیں
کہنے والے اُنھیں آشفتہ نوا کہتے ہیں
گُل بداماں ہیں یہ بولیں تو یونہی پھول جھڑیں
اِن کی ہر بات پہ ہم نامِ خدا کہتے ہیں
دُہرے شہری ہیں یہی لوگ اِنھیں کچھ بھی کہو
جو کناڈا کو یونہی قبلہ نما کہتے ہیں
گو الیکشن میں ابھی...