کوئی انیس کوئی آشنا نہیں رکھتے ۔ سلام از میر ببر علی انیس
کوئی انیس کوئی آشنا نہیں رکھتے
کسی کی آس بغیر از خدا نہیں رکھتے
نہ روئے بیٹوں کے غم میں حسین، واہ رے صبر
یہ داغ، ہوش بشر کے بجا نہیں رکھتے
کسی کو کیا ہو دلوں کی شکستگی کی خبر
کہ ٹوٹنے میں یہ شیشے صدا نہیں رکھتے
ابو تراب...
لبوں پہ آ کے قلفی ہو گئے اشعار سردی میں
غزل کہنا بھی اب تو ہو گیا دشوار سردی میں
محلے بھر کے بچوں نے دھکیلا صبح دم اس کو
مگر ہوتی نہیں اسٹارٹ اپنی کار سردی میں
مئی اور جون کی گرمی میں جو دلبر کو لکھا تھا
اسی خط کا جواب آیا ہے آخر کار سردی میں
دوا دے دے کے کھانسی اور نزلے کی مریضوں کو
معالج...
مطلق نہیں ادھر ہے اس دل ربا کی خواہش
کیا جانیے کہ کیا ہے یارو خدا کی خواہش
دیکھیں تو تیغ اس کی اب کس کے سر چڑھے ہے
رکھتے ہیں یار جی میں اُس کی جفا کی خواہش
لعلِ خموش اپنے دیکھو ہو آرسی میں
پھر پوچھتے ہو ہنس کر مجھ بے نوا کی خواہش
اقلیمِ حسن سے ہم دل پھیر لے چلے ہیں
کیا کریے یاں نہیں ہے...
روزگارِ فقیر، اوائلِ لڑکپن میں پڑھی تھی اور اس کتاب کا پہلا نسخہ شاید اب بھی والد صاحب کے پاس موجود ہو ۔ پرانی یادیں تازہ کردیں آپ نے۔ شکریہ زبیر صاحب!
افسانہ ہائے درد سناتے چلے گئے
خود روئے دوسروں کو رلاتے چلے گئے
بھرتے رہے الم میں فسونِ طرب کا رنگ
ان تلخیوں میں زہر ملاتےچلے گئے
اپنے نیازِ شوق پہ تھا زندگی کو ناز
ہم زندگی کے ناز اٹھاتےچلے گئے
ہر اپنی داستاں کو کہا داستانِ غیر
یوں بھی کسی کا راز چھپاتےچلے گئے
میں جتنا ان کی یاد بھلاتا...
جو رکن بھی کسی دھاگے کے بارے میں اطلاعات موصول کرنا چاہتا ہے وہ اس دھاگے کو زیرِ مشاہدہ لے آئے۔ کسی بھی دھاگے کے شروع کے بائیں کونے میں "موضوع کو زیرِ مشاہدہ لائیں" کو کلک کریں تو اس موضوع کے بارے میں اطلاعات وصول کی جا سکیں گی۔