عشق کا اب ملال تھوڑی ہے
دل ہے جی یرغمال تھوڑی ہے
باتوں کی بات ہے میاں کوئی
چار لمحوں کا سال تھوڑی ہے
موت تو ہم کو آنی ہے آخر
عشقِ جی کو زوال تھوڑی ہے
یہ ترے حسن کی کرامت ہے
تیرا اس میں کمال تھوڑی ہے
یہ مری ذات پر ہیں سب کے سب
ان پہ کوئی سوال تھوڑی ہے
آپ کا مجھ خیال تھوڑی ہے
اور کوئی...