فرحان محمد خان
محفلین
ہم اُن کو بھلا دیں، یہ ارادہ بھی نہیں تھا
رنج اُن سے کبھی اتنا زیادہ بھی نہیں تھا
شاطر کے اشاروں ہی پہ چلتا رہا، لیکن
بے گانۂ احوال پیادہ بھی نہیں تھا
وہ لوگ بھی کیا تھے کہ وہاں نغمہ سرا تھے
جس شہر میں ایک آدمی زادہ بھی نہیں تھا
ساقی سے گلہ کیا ہے کہ جس کے لیے آئے
مے خانے میں وہ ساغر و بادہ بھی نہیں تھا
ہم جس کے مسافر تھے، وہ منزل نہیں آئی
دیکھا تو قدم برسرجادہ بھی نہیں تھا
درویش خدا مست تھا، رخصت ہوا ہم سے
سادہ سا وہ اک شخص کہ سادہ بھی نہیں تھا
رنج اُن سے کبھی اتنا زیادہ بھی نہیں تھا
شاطر کے اشاروں ہی پہ چلتا رہا، لیکن
بے گانۂ احوال پیادہ بھی نہیں تھا
وہ لوگ بھی کیا تھے کہ وہاں نغمہ سرا تھے
جس شہر میں ایک آدمی زادہ بھی نہیں تھا
ساقی سے گلہ کیا ہے کہ جس کے لیے آئے
مے خانے میں وہ ساغر و بادہ بھی نہیں تھا
ہم جس کے مسافر تھے، وہ منزل نہیں آئی
دیکھا تو قدم برسرجادہ بھی نہیں تھا
درویش خدا مست تھا، رخصت ہوا ہم سے
سادہ سا وہ اک شخص کہ سادہ بھی نہیں تھا
جاوید احمد غامدی