میں سرِ عرش بھی پہنچا تو سرِ فرش رہا
کائناتوں کے سب امکاں مرے اندر ضم تھے
عمر بھر خاک میں جو اشک ہوئے جذب ندیم
برگِ گل پر کبھی ٹپکے تو وہی شبنم تھے
واہ زبردست غزل ھے قاسمی صاحب کی ، بہت شکریہ احمد اس اچھی شئیرنگ کیلئے۔
زندگی قطرے کو سکھلاتی ھے اسرارِ حیات
یہ کبھی گوہر، کبھی شبنم، کبھی آنسو ہوا
پھر کہیں سے اس کو پیدا کر ، بڑی دولت ھے یہ
زندگی کیسی جو دل بیگانہء پہلو ہوا
(بانگِ درا)
بہت اچھا ٹاپک شروع کیا ھے سرمد ، بہت شکریہ۔