عشق سے میں ڈر چکا تھا، ڈر چکا تو تم ملے
دل تو کب کا مر چکا تھا، مر چکا تو تم ملے
جب میں تنہا گُھٹ رہا تھا تب کہاں تھی زندگی
دل بھی غم سے بھر چکا تھا، بھر چکا تو تم ملے
بے قراری پھر محبت، پھر سے دھوکا اب نہیں
فیصلہ میں کر چکا تھا، کر چکا تو تم ملے
اترتا ہے سلیقے سے یہ جذبہ بھی امیروں پر
"دسمبر "ایک فیشن ہے سجاوٹ کے جزیروں پر
کسی رشتے کا کیا رشتہ ؟ بدلتے اس کیلنڈر سے
مہینے سب برابر ہیں محبت کے فقیروں پر