آپ کا تو تکیہ کلام ٹھہرا لیکن اپنے نام کے ساتھ لگا لاحقہ دیکھ کر ہم بظاہر تو شرمندہ لیکن دل ہی دل میں خوش ہوئے. :):)
میرے لیے باعثِ اعزاز ہے اگر اس غزل سے آپ کے ذوق کی تسکین کا کچھ سامان ہوا. بہت شکریہ.
کوئی سورج طاقِ مژگاں پر مرے رکھا ہوا ہے
چشمِ گریاں کا سمندر سوکھ کر صحرا ہوا ہے
ماسوائے حسرتِ انجام ِالفت یاد ہے سب
بج رہا ہے سازِ غم، سوزِ نہاں بھولا ہوا ہے
بس نرا اک فلسفہ ہے ارتقائے آدمیت
آج بھی ہر شخص اپنے خول میں سمٹا ہوا ہے
فتنہءِ محشر اٹھا ہے اک نگاہِ ناز سے یوں
تھم گئی ہے نبضِ...
وہ جو مستقبل کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے
ماضی کا قہوہ پی رہے ہیں
حال بہت بڑی بساط ہے شطرنج کی
ان کے لیے
اور عام آدمی
وہ مہرہ جو پٹ رہا ہے
شاہ کو بچانے کے لیے
اپنی مرضی کے خلاف
( نعمان شوق )
ایک کنجوس آدمی اپنی بائیں آنکھ پر ہاتھ رکھ کر جارہا تھا۔ ایک شخص نے پوچھا:
”خیریت ہے بھائی! آنکھ کو کیا ہوا۔“
کنجوس آدمی نے جواب دیا:
”کچھ بھی نہیں! جب ایک آنکھ سے کام چل جاتا ہے تو دوسری کیوں استعمال کروں۔
ہم تک اصل خبر دیر تک پہنچی. یہ تو خیر مذہبی سکالر ہے یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جائے گا کہ اسلام میں چار شادیوں کی اجازت ہے. اور وہ شادی کے لیے خواتین کو اپروچ کر رہا تھا.آپ سوچیے ماہرہ کا کیا بنے گا.