میرے تایا مرحوم جناب م۔حنیفؔ شاہجہاں پوری کی ایک غزل آپ سب کے ذوقِ بسیار خوب کی نذر
کشِ مسلسل سے آتشِ غم جلا جلا کر بجھا رہے ہیں
دہانِ زخمِ فضا میں گویا دھویں کے ٹانکے لگا رہے ہیں
خیالِ زلف دراز، ذکرِ بہار و باغ و شراب و شیشہ
خیالِ سرکش کو اس طرح ہم تھپک تھپک کر سلا رہے ہیں
کلی کے شانے ہلا...
رشید بھائی ماشاء بہت اچھے خیالات ہیں اور آپ کی اردو سے محبت بھی قابل رشک ہے.
مجھے ایسا لگ رہا ہے اس نظم میں دو بحریں خلط ہو گئی ہیں. ٹیپ کا مصرع مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن میں ہے جبکہ دیگر کئی مصارع مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن میں موزوں ہو رہے ہیں.
لکھتے رہو بھئی ۔۔۔ لکھتے لکھتے ایک نہ ایک دن پہنچ ہی جاؤ گے وہاں بھی
بہت کم لوگوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ سنجیدہ اور مزاحیہ ایک سا بہتر لکھ سکیں ۔۔۔ آپ ان چند خوش نصیبوں میں سے ہیں :)
اس کا پہلا مصرع دیکھ لیجیے ۔۔۔ دوسرے جزو میں بحر گڑبڑا گئی ہے ۔۔۔ مفعول فاعلاتن میں تقطیع ہو رہا ہے مفعول مفاعیلن کی جگہ
کاشانۂ رقصاں کی ترکیب بھی محلِ نظر ہو سکتی ہے کیونکہ عموماً رقصاں محو رقص ہونے کی کیفیت کو کہا جاتا ہے۔
اچھی غزل ہے فاخرؔ ۔۔۔ ایک دو مصرعے بس بحر کے ایک جزو میں مکمل تقطیع نہیں ہو رہے ۔۔۔ مگر میرے خیال میں تو کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ۔۔۔
ویسے اچھا ہوا جو آپ پاکستان میں نہیں رہتے ورنہ ’’نیازی‘‘ کے ذکر کے بعد داد ملنا مشکل ہوجاتی موجود حالات میں :)