غزل کے ساز اٹھاؤ ،بڑی اُداس ہے رات
نواے میرؔ سناؤ، بڑی اُداس ہے رات
نواے درد میں اک زندگی تو ہوتی ہے
نواے درد سناؤ، بڑی اُداس ہے رات
اداسیوں کے جو ہم راز و ہم نفَس تھے کبھی
انھیں نہ دل سے بھلاؤ، بڑی اُداس ہے رات
جو ہو سکے تو ادھر کی بھی راہ بھول پڑو
صنم کدے کی ہواؤ! بڑی اُداس ہے رات
کہیں نہ...