نتائج تلاش

  1. Qaisar Aziz

    قاصر حسینؓ خود نہیں بنتا خدا بناتا ہے

    یزید نقشۂ جور و جفا بناتا ہے حسینؓ اس میں خطِ کربلا بناتا ہے یزید موسمِ عصیاں کا لاعلاج مرض حسینؓ خاک سے خاکِ شفا بناتا ہے یزید کاخِ کثافت کی ڈولتی بنیاد حسینؓ حُسن کی حیرت سرا بناتا ہے یزید تیز ہواؤں سے جوڑ توڑ میں گُم حسینؓ سر پہ بہن کے رِدا بناتا ہے یزید لکھتا ہے تاریکیوں کو خط دن بھر...
  2. Qaisar Aziz

    میر وہی مجھ پہ غصہ وہی یاں سے جا تُو

    وہی مجھ پہ غصہ وہی یاں سے جا تُو وہی دور ہو تُو وہی پھر نہ آ تُو میرا اس کا وعدہ ملاقات کا ہے کوئی روز اے عمر کیجیو وفا تُو بہت پوچھیو دل کو میری طرف سے اگر جائے اس کی گلی میں صبا تُو سفینہ میرا ورطۂ غم سے نکلے جو ٹک ناخدائی کرے اے خدا تُو سب اسباب ہجراں میں مرنے ہی کے تھے بھلا میرؔ کیوں کر...
  3. Qaisar Aziz

    اختر شیرانی نہ بھول کر بھی تمنائے رنگ و بو کرتے

    نہ بھول کر بھی تمنائے رنگ و بو کرتے چمن کے پھول اگر تیری آرزو کرتے مسرت! آہ تو بستی ہے کن ستاروں میں؟ زمیں پہ عمر ہوئی تیری جستجو کرتے ایاغِ بادہ میں آ کر وہ خود چھلک پڑتا گر اُس کے رند ذرا اور ہاؤ ہو کرتے پکار اٹھتا وہ آکر دلوں کی دھڑکن میں ہم اپنے سینوں میں گر اس کی جستجو کرتے جنونِ...
  4. Qaisar Aziz

    عدم یُوں جُستجُوئے یار میں آنکھوں کے بَل گئے

    یُوں جُستجُوئے یار میں آنکھوں کے بَل گئے ہم کُوئے یار سے بھی کُچھ آگے نکل گئے واقف تھے تیری چشمِ تغافل پسند سے وہ رنگ جو بہار کے سانچے میں ڈھل گئے اے شمع! اُن پتنگوں کی تُجھ کو کہاں خبر جو اپنے اشتیاق کی گرمی سے جل گئے وہ بھی تو زندگی کے ارادوں میں تھے شریک جو حادثات تیری مروّت سے ٹل گئے جب...
  5. Qaisar Aziz

    فراز اِنہی خوش گمانیوں میں کہیں جاں سے بھی نہ جاؤ

    اِنہی خوش گمانیوں میں کہیں جاں سے بھی نہ جاؤ وہ جو چارہ گر نہیں ہے اسے زخم کیوں دکھاؤ یہ اداسیوں کے موسم یونہی رائیگاں نہ جائیں کسی یاد کو پکارو، کسی درد کو جگاؤ وہ کہانیاں ادھوری، جو نہ ہو سکیں گی پوری انہیں میں بھی کیوں سناؤں انہیں تم بھی کیوں سناؤ یہ جُدائیوں کے رستے بڑی دور تک گئے ہیں جو...
  6. Qaisar Aziz

    اپنی مستی، کہ تِرے قُرب کی سرشاری میں

    اپنی مستی، کہ تِرے قُرب کی سرشاری میں اب میں کچھ اور بھی آسان ہوں دُشواری میں کتنی زرخیز ہے نفرت کے لیے دل کی زمیں وقت لگتا ہی نہیں فصل کی تیاری میں اِک تعلق کو بکھرنے سے بچانے کے لیے میرے دن رات گُزرتے ہیں اداکاری میں وہ کسی اور دوا سے مرا کرتا ہے علاج مُبتلا ہوں میں کسی اور ہی بیماری میں...
  7. Qaisar Aziz

    منیر نیازی ہِجر شب میں اِک قرارِ غائبانہ چاہیے

    ہِجر شب میں اِک قرارِ غائبانہ چاہیے غیب میں اِک صورتِ ماہِ شبانہ چاہیے سن رہے ہیں جس کے چرچے شہر کی خلقت سے ہم جا کے اِک دن اس حسِیں کو دیکھ آنا چاہیے اس طرح آغاز شاید اِک حیاتِ نو کا ہو پچھلی ساری زندگی کو بھول جانا چاہیے وہ جہاں ہی دوسرا ہے وہ بت دیر آشنا اس جہاں میں اس سے ملنے کو زمانہ...
  8. Qaisar Aziz

    اعتبار ساجد اختلاف اس سے اگر ہے تو اسی بات پہ ہے

    اختلاف اس سے اگر ہے تو اسی بات پہ ہے زور سب اس کا فقط اپنے مفادات پہ ہے اپنے آئندہ تعلق کا تو اب دار و مدار تیری اور میری ہم آہنگئ جذبات پہ ہے دل کو سمجھایا کئی بار کہ باز آ جائے پھر بھی کمبخت کو اصرار ملاقات پہ ہے اس کا کہنا ہے مجھے بھی کبھی دیکھو مڑ کر کیا کروں میری نظر صورتِ حالات پہ ہے...
  9. Qaisar Aziz

    اعتبار ساجد کھو چکے ہیں جس کو وہ جاگیر لے کر کیا کریں

    کھو چکے ہیں جس کو وہ جاگیر لے کر کیا کریں اِک پرائے شخص کی تصویر لے کر کیا کریں ہم زمیں زادے، ستاروں سے ہمیں کیا واسطہ؟ دل میں ناحق خواہشِ تسخیر لے کر کیا کریں عالموں سے زائچے بنوائیں کس اُمید پر خواب ہی اچھے نہ تھے تعبیر لے کر کیا کریں اعتبارِ حرف کافی ہے تسلی کیلئے پکے کاغذ پر کوئی تحریر لے...
  10. Qaisar Aziz

    اعتبار ساجد میں نے راتوں کو بہت سوچا ہے تم بھی سوچنا

    میں نے راتوں کو بہت سوچا ہے تم بھی سوچنا فیصلہ کن موڑ آ پہنچا ہے تم بھی سوچنا سوچنا ممکن ہے کیسے اس جدائی کا علاج ؟ حال ہم دونوں کا اِک جیسا ہے تم بھی سوچنا پل تعلق کا شکستہ کیوں ہوا؟ سوچوں گا میں دور نیچے ہجر کا دریا ہے تم بھی سوچنا کس قدر برہم ہیں لہریں سوچ کر آتا ہے خوف اور پانی کس قدر...
  11. Qaisar Aziz

    اعتبار ساجد رستے کا انتخاب ضروری سا ہو گیا

    رستے کا انتخاب ضروری سا ہو گیا اب اختتام باب ضروری سا ہو گیا ہم چپ رہے تو اور بھی الزام آئے گا اب کچھ نہ کچھ جواب ضروری سا ہو گیا ہم ٹالتے رہے کہ یہ نوبت نہ آنے پائے پھر ہِجر کا عذاب ضروری سا ہو گیا ہر شام جلد سونے کی عادت ہی پڑ گئی ہر رات ایک خواب ضروری سا ہو گیا آہوں سے ٹوٹتا نہیں یہ گنبدِ...
  12. Qaisar Aziz

    عجیب حال یہاں دھوپ کے دیار میں تھا

    عجیب حال یہاں دھوپ کے دیار میں تھا شجر خود اپنے ہی سائے کے اِنتظار میں تھا نہ جانے کون سے موسم میں پھول کِھلتے ہیں یہی سوال خزاں میں، یہی بہار میں تھا ہر ایک سمت سے لشکر ہوا کے آئے تھے اور اِک چراغ ہی میدانِ کارزار میں تھا کِھنچی ہوئی تھی مِرے گرد واہموں کی لکِیر میں قید اپنے بنائے ہوئے حِصار...
  13. Qaisar Aziz

    کاٹتے بھی ہیں اِسی فصل کو بونے والے

    کاٹتے بھی ہیں اِسی فصل کو بونے والے ڈوب بھی جاتے ہیں اِک روز ڈبونے والے لاش ابھری تو کئی نام لِکھے تھے اس پر کتنے حیران ہوئے مجھ کو ڈبونے والے کچھ تو اِس سادہ مزاجی کا صِلہ دے ان کو کس قدر جلد بہل جاتے ہیں رونے والے زندگی لاکھ انہیں بارِ گراں لگتی ہے خوش تو رہتے ہیں مگر بوجھ یہ ڈھونے والے...
  14. Qaisar Aziz

    کبھی تو یوں ہو کہ دونوں کا کام چل جائے

    کبھی تو یوں ہو کہ دونوں کا کام چل جائے ہَوا بھی چلتی رہے اور دِیا بھی جل جائے یہی لگے کہ حقیقت میں کچھ ہوا ہی نہ تھا جو سانحہ تھا کسی خواب میں بدل جائے ڈرو کہ وقت کے ہاتھوں میں ساری بازی ہے نہ جانے کون سی کس وقت چال چل جائے نشانیاں بھی مِلیں گی پرانے موسم کی ذرا ہوا تو رکے، برف تو پگھل جائے...
  15. Qaisar Aziz

    بدن کو زخم کریں خاک کو لبادہ کریں

    بدن کو زخم کریں خاک کو لبادہ کریں جنوں کی بھولی ہوئی رسم کا اعادہ کریں تمام اگلے زمانوں کو یہ اجازت ہے ہمارے عہدِ گذشتہ سے اِستفادہ کریں انہیں اگر مِری وحشت کو آزمانا ہے زمیں کو سخت کریں دشت کو کشادہ کریں چلو لہو بھی چراغوں کی نذر کر دیں گے یہ شرط ہے کہ وہ پھر روشنی زیادہ کریں سنا ہے سچی ہو...
  16. Qaisar Aziz

    عرفان صدیقی اِسی دنیا میں مِرا کوئے نگاراں بھی تو ہے

    اِسی دنیا میں مِرا کوئے نگاراں بھی تو ہے ایک گھر بھی تو ہے، اِک حلقۂ یاراں بھی تو ہے آ ہی جاتی ہے کہیں موجِ ہوائے نمناک اس مسافت میں کہیں خطۂ باراں بھی تو ہے راستوں پر تو ابھی برگِ خزاں اڑتے ہیں خیر، اطراف میں خوشبوئے بہاراں بھی تو ہے کچھ نظر آتی نہیں شہر کی صورت ہم کو ہر طرف گردِ رہِ...
  17. Qaisar Aziz

    عرفان صدیقی ایک ضد تھی، مِرا پندارِ وفا کچھ بھی نہ تھا

    ایک ضد تھی، مِرا پندارِ وفا کچھ بھی نہ تھا ورنہ ٹوٹے ہوئے رِشتوں میں بچا کچھ بھی نہ تھا بہت کچھ جو کوئی دیکھنے والا ہوتا یوں کسی شخص کے چہرے پہ لکھا کچھ بھی نہ تھا اب بھی چپ رہتے تو مجرم نظر آتے ورنہ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں شوقِ نوا کچھ بھی نہ تھا یاد آتا ہے کئی دوستیوں سے بھی سوا اِک تعلق جو...
  18. Qaisar Aziz

    عرفان صدیقی تشنہ رکھا ہے، نہ سرشار کیا ہے اُس نے

    تشنہ رکھا ہے، نہ سرشار کیا ہے اُس نے میں نے پوچھا ہے تو اِقرار کیا ہے اُس نے گِر گئی قیمتِ شمشاد قداں آنکھوں میں شہر کو مصر کا بازار کیا ہے اُس نے وہ یہاں ایک نئے گھر کی بِنا ڈالے گا خانۂ درد کو مسمار کیا ہے اُس نے دیکھ لیتا ہے تو کِھلتے چلے جاتے ہیں گلاب میری مٹی کو خوش آثار کیا ہے اُس نے...
  19. Qaisar Aziz

    عرفان صدیقی وہ خدا ہے کہ صنم ہاتھ لگا کر دیکھیں

    وہ خدا ہے کہ صنم ہاتھ لگا کر دیکھیں آج اس شوخ کو نزدیک بلا کر دیکھیں ایک جیسے ہیں سبھی گلبدنوں کے چہرے کس کو تشبیہہ کا آئینہ دِکھا کر دیکھیں کیا تعجب کوئی تعبیر دِکھائی دے جائے ہم بھی آنکھوں میں کوئی خواب سجا کر دیکھیں جسم کو جسم سے ملنے نہیں دیتی کم بخت اب تکلف کی یہ دیوار گِرا کر دیکھیں...
  20. Qaisar Aziz

    عرفان صدیقی ہم بندگاں تو نذرِ وفا ہونے والے ہیں

    ہم بندگاں تو نذرِ وفا ہونے والے ہیں پھر آپ لوگ کِس کے خدا ہونے والے ہیں اِس طرح مطمئن ہیں مِرے شب گزیدگاں جیسے یہ سائے ظلِ ہما ہونے والے ہیں بے چارے، چارہ سوزئی آزار کیا کریں دو ہاتھ ہیں، سو محوِ دعا ہونے والے ہیں اِک روز آسماں کو بھی تھکنا ضرور ہے کب تک زمیں پہ حشر بپا ہونے والے ہیں ہم پہلے...
Top