اعتبار ساجد اختلاف اس سے اگر ہے تو اسی بات پہ ہے

Qaisar Aziz

محفلین
اختلاف اس سے اگر ہے تو اسی بات پہ ہے
زور سب اس کا فقط اپنے مفادات پہ ہے

اپنے آئندہ تعلق کا تو اب دار و مدار
تیری اور میری ہم آہنگئ جذبات پہ ہے

دل کو سمجھایا کئی بار کہ باز آ جائے
پھر بھی کمبخت کو اصرار ملاقات پہ ہے

اس کا کہنا ہے مجھے بھی کبھی دیکھو مڑ کر
کیا کروں میری نظر صورتِ حالات پہ ہے

بے حِسی کے مجھے الزام عطا اس نے کئے
جس کے احساس کا سایہ مرے دن رات پہ ہے

چارہ گر اس کے سوا کون ہے ساجدؔ میرا
قبضہ جس کا مری تنہائی کے لمحات پہ ہے

اعتبار ساجد
 
Top