غزل
(خلیل الرحمٰن اعظمی)
دل کی لگی اسی سے بجھالیں گے شام میں
اک بوند رہ گئی ہے ابھی اپنے جام میں
ہم پر پڑا ہے وقت مگر اے نگاہِ یار
کوئی کمی نہ ہوگی ترے احترام میں
ہر سمت آتی جاتی صداؤں کے سلسلے
ہم خود کو ڈھونڈتے ہیں اسی اژدہام میں
چلنے کو ساتھ ساتھ ہمارے سبھی چلے
ہاں پھر اُلجھ کے رہ گئے سب...
غزل
(حبیب احمد صدیقی)
فیض پہنچے ہیں جو بہاروں سے
پوچھتے کیا ہو دل فگاروں سے
کتنے نغمے بنا لئے ہم نے
سازِ دل کے شکستہ تاروں سے
آشیاں تو جلا مگر ہم کو
کھیلنا آگیا شراروں سے
آپ اور آرزوئے عہدِ وفا
وہ بھی ہم سے گناہ گاروں سے
اب نہ دل میں خلش نہ آنکھ میں اشک
سخت نادم ہوں غم گساروں سے
کیا ہوا یہ...
غزل
(خورشید احمد جامی)
گل بداماں نہ کوئی شعلہ بجاں ہے اب کے
چار سو وقت کی راہوں میں دھواں ہے اب کے
سربریدہ ہیں نظارے تو سحر خوں گشتہ
جس طرف دیکھئے مقتل کا سماں ہے اب کے
شامِ ہجراں جسے ہاتھوں میں لئے پھرتی تھی
کون جانے کہ وہ تصویر کہاں ہے اب کے
زندگی رات کے پھیلے ہوئے سناٹے میں
دور ہٹتے ہوئے...
تعارفِ شاعر: مندرجہ بالا غزل کے شاعر بانی کا پورا نام راجیندر منچندا بتخلص بانی ہے۔ آپ 1932ء میں ملتان شریف میں پیدا ہوئے۔ بعد میں ان کا خاندان دہلی ہجرت کرگیا۔۔
انہوں نے معاشیات میں ماسٹرز کی ڈگری دہلی سے حاصل کی۔ 1981ء بانی صاحب اس دنیا سے کوچ کرگئے۔۔۔
غزل
(بانی)
ہاتھ تھے روشنائی میں ڈوبے ہوئے اور لکھنے کو کوئی عبارت نہ تھی
ذہن میں کچھ لکیریں تھیں، خاکہ نہ تھا۔ کچھ نشاں تھے نظر میں، علامت نہ تھی
زرد پتے کہ آگاہ تقدیر تھے، ایک زائل تعلق کی تصویر تھے
شاخ سے سب کو ہونا تھا آخر جُدا، ایسی اندھی ہوا کی ضرورت نہ تھی
اک رفاقت تھی زہریلی ہوتی ہوئی،...
غزل
(بانی)
عجیب رونا سسکنا نواح جاں میں ہے
یہ اور کون مرے ساتھ امتحاں میں ہے
یہ رات گزرے تو دیکھوں طرف طرف کیا ہے
ابھی تو میرے لئے سب کچھ آسماں میں ہے
کٹے گا سر بھی اسی کا کہ یہ عجب کردار
کبھی الگ بھی ہے، شامل بھی داستاں میں ہے
تمام شہر کو مسمار کر رہی ہے ہوا
میں دیکھتا ہوں وہ محفوظ کس مکاں...