غزل۔ ۳۱
تیرا کوئی راہبر نہ میرا
ہوگا کوئی ہم سفر نہ میرا۳
۳ - ایضاً ،ص ۱۷
خ
غزل ۔۳۲
اقبال ، مدرسوں نے دانش تو عام کر دی
نایاب ہو گیا ہے جذبِ قلندرانہ
ملّائے کم نظر نے امّت میں پھوٹ ڈالی
تسبیحِ مصطفیؐ ہے صدیوں سے دانہ دانہ۱
۱ - بیاض پنجم، ص ۱۴
خ
غزل ۔۳۴
اس پیکرِ خاکی میں بنتی ہے خودی جس دم...
ساقی نامہ
بند اوّل
صبا فرشِ نسریں بچھانے لگی
زمیں سے ستارے اگانے لگی
نسیمِ سحر گل کھلانے لگی
چٹانوں پہ مخمل بچھانے لگی
زمیں ، یاسمن سے ہے مہتاب خیز
پہاڑوں کے چشمے ہیں سیماب خیز
یہ کہتا ہے دل سے پرندوں کا گیت
محبت میں ہارے ہوئے کی ہے جیت
وہ پانی چمکتا دمکتا ہوا
اٹکتا ، لچکتا ، سرکتا ہوا
لپٹتا ،...
ظریفانہ قطعات کے جزوی متروکات
قطعہ :
مشرق میں اصول دیں بن جاتے ہیں
شعر اول :
ہندی ناداں ہیں کہ چلّاتے ہیں
یورپ سے برابری کی ٹھہراتے ہیں
اشعار، بانگِ درا، ص ،۲۸۸
خ
گائے اک روز ہوئی اونٹ سے یوں گرمِ سخن
شعر :
جان بل ہانکتا ہے ایک ہی لاٹھی سے ہمیں
یعنی ہے یک جہتی اس کی حکومت کا شعار
قطعات...
فلسفۂ غم
بند۔ ۳
شعر۔ ۴
گو بظاہر تلخیِ دوراں سے آرامیدہ ہے
زندگی کا راز اس کی آنکھ سے پوشیدہ ہے
بند۔ ۶
شعر۔ ۲
خواب سے ہم کو جرس جس دم جگا سکتی نہیں
عقل کی مشعل رہِ منزل دکھا سکتی نہیں۱
خ
پھول کا تحفہ عطا ہونے پر
ہجومِ گل میں پسندِ نگاہِ ناز ہوا
ترانہ ریز تری زندگی کا ساز ہوا
کسی کے حسنِ دلاویز...
غزل
؎سختیاں کرتا ہوں دل پر ،غیر سے غافل ہوں میں
اے تماشائی مری پستی کا نظّارہ تو دیکھ
اسفلِ عالی نظر ہوں ، ناقصِ کامل ہوں میں
تم نے تاکا دل کو لیکن اف رے شوقِ تیرِ عشق
دل سے کہتا ہے جگر ، تو دل نہیں ہے ، دل ہوں میں
تجھ میں پوشیدہ ہے لیلیٰ اور ہے لیلیٰ کوئی
کہہ رہا ہے دل ترا ، لیلیٰ نہیں ، محمل...
جس کو شہرت بھی ترستی ہے وہ رسوا اور ہے
ہوش بھی جس پر پھڑک جائیں وہ سودا اور ہے
بن کے پروانہ ترا آیا ہوں میں اے شمعِ طور
بات پھر وہ چھڑ نہ جائے ، یہ تقاضا اور ہے
جان دیتا ہوں تڑپ کر کوچۂ الفت میں میں
دیکھ لو تم بھی کوئی دم کا تماشا اور ہے
اور کچھ اندھیر کر دینا نہ اے نورِ سحر
ہجر کی شب ہے ، ابھی...
نیا شوالا
کچھ فکر پھوٹ کی کر ، مالی ہے تو چمن کا
بوٹوں کو پھونک ڈالا اس بِس بھری ہوا نے
پھر اک انوپ ایسی سونے کی مورتی ہو
اس ہردوار دل میں لا کر جسے بٹھا دیں
سندر ہو اس کی صورت ، چھب اس کی موہنی ہو
اس دیوتا سے مانگیں جو دل کی ہوں مرادیں
زنّار ہو گلے میں ، تسبیح ہاتھ میں ہو
یعنی صنم کدے میں شانِ...
شمع و پروانہ
وہ بات تجھ میں کیا ہے کہ یہ بے قرار ہے
جاں در ہوائے لذّتِ خوابِ مزار ہے
بے اختیار سوز سے تیرے بھڑک اٹھا
قسمت کا اپنی بن کے ستارہ چمک اٹھا
تھوڑی سی روشنی پہ فدا ہو رہا ہے یہ
اک نور ہے کہ جس میں فنا ہو رہا ہے یہ
پروانہ کیا ہے ، اک دلِ ایذا طلب ہے یہ
عینِ وصال و سوزِ جدائی غضب ہے یہ
۱...
عورت
چاند کی لے کر گولائی ، سانپ کا پیچ اور خم
گھاس کی پتّی کی ہلکی تھر تھراہٹ بیش و کم
بیدِ مجنوں کی نزاکت ، بیل کے بل کی کجی
بانکپن طائوس کا ، نرمی گلِ کہسار کی
پیارے پیارے ، بھولے بھالے ، دیدئہ آہوئے چیں
جن پہ ہو رقصِ شعاعِ نورِ خورشیدِ جبیں
ابر سے آنسو، صبا سے بے وفائی لے اڑا
سہم خرگوش اور...
۲ - سرود ِرفتہ ص ۸۶
خ
دربارِ بہاول پور
بزمِ انجم میں ہے گو چھوٹا سا اک اختر ، زمیں
آج رفعت میں ثریّا سے بھی ہے اوپر زمیں
اوج میں بالا فلک سے ، مہر سے تنویر میں
کیا نصیبہ ہے رہی ہر معرکے میں ور زمیں
انتہائے نور سے ہر ذرّہ اختر خیز ہے
مہر و ماہ و مشتری صیغے ہیں اور مصدر زمیں
لے کے پیغامِ طرب جاتی...
پنجۂ فولاد
(منشی محمدالدین فوق کے ہفتہ وار اخبار کے متعلق جو ۱۹۰۱ء میں جاری ہوا تھا۔)
’’پنجۂ فولاد‘‘ اک اخبار ہے
جس سے سارا ہند واقف کار ہے
دفترِ اخبار ہے لاہور میں
جس کا کوچہ مثلِ کوئے یار ہے
ہے روش اس کی پسندِ خاص و عام
واہ وا کیا معتدل اخبار ہے
غیر سے نفرت نہ اپنوں سے بگاڑ
اپنے بیگانے...
خدا حافظ
منشی محبوب عالم کے یورپ روانہ ہونے پر
لیجے حاضر ہے مطلعِ رنگیں
جس پہ صدقے ہو شاہدِ تحسیں
سوئے یورپ ہوئے وہ راہ سپر
مفت میں ہو گیا ستم ہم پر
آنکھ اپنی ہے اشکِ خونیں سے
غیرتِ کاسۂ مئے احمر
فتحِ ملکِ ہنر کو جاتے ہیں
ہم رکابی کو آ رہی ہے ظفر
تاڑ جاتے ہیں تاڑنے والے
کھینچ کر لے چلا ہے...
نالۂ یتیم
آہ ! کیا کہیے کہ اب پہلو میں اپنا دل نہیں
بجھ گئی جب شمعِ روشن درخورِ محفل نہیں
اے مصافِ نظمِ ہستی میں ترے قابل نہیں
نا امیدی جس کو طے کر لے یہ وہ منزل نہیں
ہائے کس منہ سے شریکِ بزمِ مے خانہ ہوں میں
ٹکڑے ٹکڑے جس کے ہو جائیں وہ پیمانہ ہوں میں
خارِ حسرت غیرتِ نوکِ سناں ہونے لگا
یوسفِ غم...
فلاحِ قوم
اقبال نے یہ نظم فروری ۱۸۹۶ء میں انجمن کشمیری مسلمانانِ لاہور کے ایک اجلاس میں پڑھی تھی -
کیا تھا گردشِ ایام نے مجھے محزوں
بدن میں جان تھی جیسے قفس میں صیدِ زبوں
چڑھائی فوجِ الم کی ہوئی تھی کچھ ایسی
علم خوشی کا مرے دل میں ہو گیا تھا نگوں
کیا تھا کوچ جو دل سے خوشی کی فوجوں نے
لگائے خیمہ...
دورِ اوّل کا کلام
(۱۸۹۳ء تا ۱۹۰۸ئ)
’’بانگِ درا‘‘ کے متروکات
خ مکمل متروکہ نظمیں
خ نظموں کے جزوی متروکات
خ مکمل متروکہ غزلیں
خ غزلوں کے جزوی متروکات
خ مکمل قطعات ؍ رباعیات
مکمل متروکہ نظمیں
مشہور پنجابی مثل ہے
جیہا منہ تئی چپیڑ
واہ سعدی دیکھ لی گندہ دہانی آپ کی
خوب ہو گی مہتروں میں قدر دانی...
علامہ کی اصلاحات
اقبال کے ہاں کلام کو خوب سے خوب تر بنانے کا عمل لمحہ تخلیق سے مجموعے کی اشاعت تک جاری رہتا تھا ۔ مولانا مسعود عالم ندوی کے نام خط میں اگرچہ علامہ اپنے آپ کو فنِ اصلاح سے نابلد قرار دیتے ہیں۔ ۹ لیکن یہ محض ان کا انکسار ہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ وہ اس فن کے تمام اسرار و رموز سے...
باقیاتِ شعر اقبال
(متروک اردو کلام )
مرتبہ
ڈاکٹر صابر کلورُوی
اقبال اکادمی پاکستان
انتساب
اپنے والد
شاہ میر خان
(متوفٰی :۷ دسمبر ۱۹۹۰ئ)
کے نام
جنہیں اس کام کی تکمیل کی بڑی حسرت تھی
انتباہ
زیر نظر مجموعے میں شامل اشعار کا تقریباً ۹۰فیصد حصہ ایسا ہے جسے اقبال نے شعوری طور پر ترک...